اعلیٰ سیاسی قیادت پر اربوں کی کرپشن کے الزامات کے بعد عوام میں یہ بات اسٹیبلشٹ ہوگئی ہے کہ ہماری اعلیٰ سیاست کا ایک بڑا حصہ کرپٹ ہے اورکرپشن بھی چھوٹی موٹی نہیں، اربوں روپوں کی کرپشن۔ اس کرپشن کے الزامات کے تحت بہت سارے لیڈرگرفتار بھی ہیں۔
گرفتارکس طرح ہیں اس کا تذکرہ میڈیا میں یوں آتا ہے کہ یہ گرفتار اکابرین کو بہترین سہولتیں حاصل ہیں۔ اس پس منظر میں یہ اعلیٰ سطح گرفتاریاں ایک مذاق لگتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے وہ اکابرین جن پر بھاری کرپشن کے الزامات ہیں اپنی گرفتاریوں سے ذرا پریشان نہیں ہیں بلکہ گرفتاریوں کو خوب انجوائے کررہے ہیں۔
اس اشرافیائی کلچر میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے جو بات قابل غور اور قابل اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نظامتی کلچر میں جو انگریزوں کا چھوڑا ہوا ہے۔ ملزم اور مجرم کو ایک سطح پر رکھا جاتا ہے جب کہ ملزم خواہ اس پرکتنے ہی سنگین الزامات لگائے گئے ہوں وہ مجرم ہرگز نہیں ہوتا تا وقت یہ کہ اس پر جرم ثابت نہ ہوجائے۔
یہ ایک غیر منصفانہ کلچر ہے جسے اس طرح تبدیل کیا جانا چاہیے کہ ملزم کو غیر اصولی طور پر مجرم کی مشکلات سے گزرنا نہ پڑے، یہ کلچر چونکہ بہت پرانا ہے لہٰذا اس کی اچھائیوں اور برائیوں پر بہت کم غور کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ غیر ضروری گرفتاریوں کی شکل میں ملک اور معاشرے کے سامنے آتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اشرافیہ خواہ ملزم کی حیثیت سے گرفتار ہو یا مجرم کی حیثیت سے ہر جا کہ نشیند شاہ است کی پوزیشن انجوائے کرتی ہے۔ اس کے برخلاف معاشرے کے پسماندہ طبقات خواہ وہ ملزم ہوں یا مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہوں انھیں ایسی اذیتوں کے ساتھ قید میں رہنا پڑتا ہے جس کے تصور ہی سے شرفا کے پسینے آجاتے ہیں۔
اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اشرافیہ ہرجاکہ نشیند اشرافیہ است کے حوالے سے اپنی گرفتاریاں انجوائے کرتی ہے اور غریب و نادار ملزم خواہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہوں سخت اذیتیں برداشت کرتا ہے جب کہ کہا یہ جاتا ہے کہ ملزم پر جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا نہ اسے ملزم ہونا چاہیے نہ ملزم کی حیثیت سے وہ تکالیف برداشت کرنا چاہیے جو عموماً ہمارے ملک میں ملزم برداشت کرتے ہیں۔
آج کل ہماری اشرافیہ کے بہت سارے شہزادے مختلف الزام میں جن میں سرفہرست کرپشن ہے، وہ بھی اربوں کی کرپشن " گرفتار" ہیں لیکن آزاد ارکان سے زیادہ عیش کر رہے ہیں۔
ہمارا قانون اور انصاف کا نظام اس قدر لچکدار ہے کہ ایک ملزم کتنا عرصہ چاہے ملزم بنا رہ سکتا ہے اور اعلیٰ سطح ملزم اپنی حراست کے دورکو پکنک کے دور سمجھ کر گزارتے ہیں بلکہ خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اس ناروا طریقہ کارکو اب ختم ہونا چاہیے اور ملزم کی گرفتاری کے بعد ایک مقررہ کم سے کم مدت میں کیس کا فیصلہ ہوجانا چاہیے تاکہ ملزم کم سے کم حراستی تکالیف برداشت کرسکے۔ ہمارے عدالتی نظام کا ایک انتہائی شرمناک اصول یہ ہے کہ ملزم جس کا تعلق غریب طبقات سے ہو برسوں بلکہ عشروں ملزم یعنی کچا قیدی ہوتا ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ کئی ملزم مجرم بننے سے پہلے عشروں کچے قیدی بنے رہے بلکہ بعض ان میں رہتے ہوئے انتقال کرگئے۔
جب سے اشرافیہ کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا ہے اشرافیہ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی حراست کا سارا عرصہ انڈرٹرائل رہ کر ہی گزار دے اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مقدمے اور سزا سے بچنے کا یہ ایک آسان نسخہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرصہ انڈر ٹرائل رہ کر ہی گزارا جائے اور ان ممکنہ سخت مشکلات سے بچا رہے جو منصفانہ ٹرائل کی صورت میں اشرافیہ کا مقدر ہو سکتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نے مقدمات کی طوالت کو دیکھتے ہوئے کم سے کم مدت میں فیصلوں کا ایک نیا نظام متعارف کرایا ہے جس کو بہت مفید قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ نظام ابھی تک غالباً غریب طبقات ہی تک محدود ہے اسے اشرافیائی کلاس تک لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اشرافیہ بھی فیصلوں کا طویل انتظار کرنے سے بچ جائے۔ نظام بذات خود کوئی خراب یا اچھا نہیں ہوتا اسے اچھا یا برا بنانے والے ہم خود ہوتے ہیں۔ اگر نظام کو چلانے والے اچھے ہوں مخلص ہوں تو برے سے برا نظام بھی اچھے نتائج دے سکتا ہے۔
ہمارا خمیر ایک فیوڈل معاشرے سے اٹھا ہے اس میں وہ ساری خرابیاں اور اچھائیاں موجود ہیں جو فیوڈل سسٹم میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا نظام معیشت سرمایہ دارانہ بھی ہے جس کی وجہ سے ہمارے سسٹم میں وہ اچھائیاں اور برائیاں بھی موجود ہیں جو اس کا حاصل ہیں۔ ہمارااصل مسئلہ یہ ہے کہ ملزمان کے مقدمات کم سے کم مدت میں بھگتا دیے جائیں تاکہ لوگ انصاف میں تاخیرکو نا انصافی نہ کہنے لگیں۔