امریکا ایک سپرپاور ہے اور دنیا میں سپر پاور کی حیثیت خاندان کے سربراہ کی سی ہوتی ہے لیکن اسے دنیا کی بدقسمتی کہیں یا خود امریکا کی کہ امریکا دنیا کا سرپرست بننے کے بجائے دنیا کا "دادا" بنا ہوا ہے۔ ایران امریکا کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ملک ہے، امریکا کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن عشروں سے امریکا ایران کے خلاف مسلسل اقتصادی پابندیاں لگا رہا ہے، حال میں نامعلوم وجہ کے حوالے سے مزید پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ امریکا ایک سپر پاور ہے اور ایران ایک چھوٹا سا ملک ہے امریکا کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایران دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا بے ہودہ جواب یہ ہے کہ ایران سے امریکا کو تو یقینا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ایران سے خطرہ امریکا کے پالتو اسرائیل کو خطرہ ہے اور اسرائیل کے تحفظ کی خاطر امریکا ایران کو سخت اقتصادی پابندیوں میں جکڑ رہا ہے یہ ہے جدید سامراجیت کا ایک شاہکار۔ امریکا ایران کو ہر حال میں ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا چاہتا ہے جب کہ اس کے ایٹمی اسٹور میں ہزاروں ایٹم بم سمیت جدید ہتھیار ہیں امریکا اگر ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا چاہتا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں امریکا یا اس کے اتحادیوں کے پاس کوئی جواز ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب عالمی برادری کو دینا چاہیے۔
سامراجی ملک پہلے آزاد اور خودمختار ملکوں پر قبضے کرلیتے تھے، اب چونکہ حالات بدل گئے ہیں لہٰذا سامراجی ملکوں نے آزاد ملکوں پر براہ راست قبضوں کے بجائے باالواسطہ قبضوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے امریکا کے دلدل ہیں۔
ان مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور کئی مالیاتی ادارے ایسے ہیں جو غریب اور پسماندہ ملکوں کو بھاری سود کے ساتھ قرض دیتے ہیں اوراس قسم کے قرضوں کے عوض سیاسی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں، یوں یہ ادارے پسماندہ ملکوں کے گلوں پر چھری کا کام دیتے ہیں۔ دنیا میں موجود تمام مالیاتی ادارے براہ راست یا باالواسطہ امریکا کے غلام ہیں اور امریکا کی مرضی کے مطابق پسماندہ مقروض ملکوں کی کھال کھینچتے ہیں۔
دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نام کا ایک ادارہ بنایا گیا، جس کا کام عالمی تنازعات کو منصفانہ طریقے سے حل کرنا طے پایا لیکن یہ عالمی ادارہ بھی امریکا کا غلام بن کر رہ گیا۔ اس غلام ادارے میں پسماندہ ملکوں کو انصاف امریکا کی مرضی سے ملتا ہے۔ فلسطین امریکا اور اقوام متحدہ کے نام پر ایک کلنک ہے اسی طرح کشمیر کا مسئلہ امریکا کی مرضی کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم اقوام متحدہ کو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ کہہ سکتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تعلق دنیا کے مستقبل سے ہے۔
اگر اقوام متحدہ آزاد اور بااختیار ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف کی آبرو رکھنے والا ادارہ ہوتا تو اس کی ٹیبل پر ستر سال سے وہ فائلیں پڑی نہ رہتیں جن کا حل ایک ہفتے میں نکل سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی نااہلی کی ایک اور بڑی وجہ اس کے صدر دفتر کا امریکا میں ہونا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ اس قسم کے ادارے جن ملکوں میں ہوتے ہیں۔
ان ملکوں کے نفسیاتی اثرات ان اداروں پر پڑتے ہیں، اقوام متحدہ ایک عالمی ادارہ ہے جس کے ارکان کی بڑی تعداد ایشیا، یورپ اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا دفتر کسی ایشیائی ملک میں ہو اس قسم کی تبدیلیوں کے نفسیاتی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قسم کے عدالتی اداروں پر ماحول کا اثر بھی پڑتا ہے۔
کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کے "سینئر" تنازعوں میں سے ایک ہے اگر اقوام متحدہ کا دفتر کسی ایشیائی ملک میں ہو تو مسئلہ کشمیر جیسے کرونک مسائل کے حل کے لیے ایک مثبت سیاسی فضا تشکیل پاسکتی ہے اس کے علاوہ اداروں پر ایک نفسیاتی دباؤ اور سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔
ہم اس حوالے سے امریکا کے کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکا نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل میں کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کو اس لیے بھی نظرانداز کیا جاتا ہے کہ یہ بہت پرانے یعنی لگ بھگ 70 سال پرانے مسائل ہیں۔ وقت کی لمبائی کے حوالے سے تو یہ دونوں مسائل بہت پرانے نظر آتے ہیں لیکن ان مسائل کے حوالے سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کا آج بھی تازہ اور گرم لہو بہہ رہا ہے یہ لہو پرندوں یا جانوروں کا نہیں بلکہ انسانوں کا تازہ لہو ہے اور جن مسائل کے حوالے سے انسانوں کا لہو بہتا رہتا ہے وہ مسائل سیکڑوں سال میں بھی پرانے نہیں ہوتے۔
امریکا ایک ترقی یافتہ اور مہذب ملک ہے وہ اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی اہمیت اور وقعت سے واقف ہونے کے باوجود کیا وہ کشمیر اور فلسطین جیسے کرم خوردہ مسائل کو پرانے ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر رہا ہے یا بھارت اور اسرائیل سے خصوصی تعلقات کی وجہ ان خون میں ڈوبے ہوئے مسائل سے غفلت برت رہا ہے۔
پاکستان بھارت کے مقابلے میں اور فلسطین اسرائیل کے مقابلے میں بلاشبہ کمزور ترین ملک ہے لیکن انصاف کرنے والے اداروں کے پیش نظر حقائق ہوتے ہیں۔ ملک کمزور اور طاقتور ہوسکتے ہیں لیکن قانون اور انصاف کمزور نہیں ہوسکتے۔ جہاں قانون اور انصاف کمزور ہو جاتے ہیں وہاں ظلم اور طاقت کا بول بالا ہوتا ہے جس کا مظاہرہ ہم کشمیر اور فلسطین میں دیکھ رہے ہیں، اس دیرینہ صورتحال کو بدلنے اور اقوام متحدہ کے اراکین میں ایک مثبت نفسیاتی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر کو کسی ایشیائی ملک میں منتقل کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کے لہو رنگ مسائل کے حل کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔