پچھلے دنوں کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا جو طیارہ گرا اور جس میں 100 لگ بھگ مسافر اپنی جان سے گئے، ایک افسوسناک سانحہ تھا، جس نے ہر آنکھ کو اشکبار کیا۔ سانحے کی ابتدائی رپورٹ منظر عام پر آئی تو پتہ چلا کہ پی آئی اے میں نصف سے زیادہ ایسے پائلٹ ہیں جن کے پاس جہاز اڑانے کا لائسنس ہی نہیں ہے، یعنی یہ حضرات لائسنس سے بغیر ہی ہوائی جہاز اڑا رہے تھے جب کہ ہمارے ملک میں لائسنس کے بغیر موٹرسائیکل بھی نہیں چلا سکتے۔ لیکن ہمارے پائلٹ عشروں سے ہوائی جہاز اڑا رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ کوالیفکیشن میں شفافیت چاہتے ہیں جعلی لائسنس کا سلسلہ موجودہ حکومت سے پہلے دسیوں سال سے جاری ہے اور غالباً پائلٹس کی بڑی تعداد ہماری اپوزیشن کے دورحکومت میں بھرتی کی گئی ہے۔ جعلی لائسنس رکھنے اور برسوں سے اسے استعمال کرنے کی ذمے داری کس پر عائد ہوسکتی ہے اور وقت واحد میں 100جانوں کے زیاں کی ذمے داری کس پر آنی چاہیے۔ اس غیر ذمے داری کے نتیجے میں غیر ملکوں سے پاکستانی پائلٹس کو فارغ کیا جارہا ہے ہو سکتا ہے اس حوالے سے حکومت کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
ہمارے محترم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ "سفر محفوظ بنانے کے لیے پائلٹوں کی کوالیفکیشن میں شفافیت ہونی چاہیے۔" سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 28 پائلٹس بغیر لائسنس کب سے اور کس کے دور سے جہاز اڑا رہے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے بے شمار سوالات ہماری حکومت کے سامنے ہیں۔ عوام جس کے جواب چاہتے ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ جعلی لائسنس کا دھندا سابق حکومتوں کے دور میں ہوا۔ کیا ہماری حکومتوں خاص طور پر ماضی کی حکومتوں کو اس غلطی کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے؟ 100 انسانوں کی موت کا ذمے دار کون ہوگا اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کیا ایک 22 کروڑ انسانوں کا بڑا ملک ہے یا ٹھیکیداری نظام کی کوئی کمپنی۔
8-10 سال کا عرصہ ملک کو ترقی دینے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ایک بڑا عرصہ کہلاتا ہے اگر حکمران ایماندار اور باصلاحیت ہوں تو اس عرصے میں اپنی قوم کو کم از کم ترقی کی راہ پر تو ضرور ڈال سکتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ماضی کے حساب کتاب میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ جتنے عرصے میں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جانا چاہیے تھا اتنے عرصے میں لوٹ مار کی اربوں کی دولت کو ٹھکانے لگانے میں لگ بھگ اب نئی حکومت ماضی کی لوڈ شیڈنگ کی ریہرسل کر رہی ہے اور بے چارے عوام گرمی کی تپش سے گیلے کپڑے اوڑھے وقت گزار رہے ہیں۔
اگر کسی کے ساتھ ناانصافیاں اور زیادتیاں ہو رہی ہیں تو اس کا ازالہ انصاف ہوتا ہے لیکن اگر برسراقتدار حکومتیں لوٹ مار کی انتہا کردیتی ہیں اور قانون اور انصاف بھی آنکھ بند کیے بیٹھا رہتا ہے تو پھر مظلوم عوام کہاں جائیں؟ ہم جس صورت حال سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں وہ بڑی کربناک ہے گرمی نے انسانوں کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں۔ عام آدمی گرمی کی شدت سے ادھ موا ہو رہا ہے ایسے سابق حکومتوں نے لارے لپے پر رکھا وہ اس کا آبائی کام ہے۔ اب نئی حکومت ہے اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب ہے دوستو۔ عمران کے سر پر بہت بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ اس لیے ہم عمران خان پر یہ زور نہیں دیں گے کہ وہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردے لیکن اگر ممکن ہو تو لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم سے کم کردے۔
پچھلے دنوں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے حکومت نے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن ہماری بجلی کی ضرورتوں کے حوالے سے یہ قدم بسم اللہ کہلا سکتا ہے، عشروں سے بجلی کی فراہمی کے حوالے سے سابق حکمرانوں نے ایسے ایسے عذرلنگ پیش کیے کہ انھیں خیال بھی نہ آیا، اب چونکہ یہ حضرات "سابقہ" ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے عوام ان سے کسی قسم کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے ملک کو دہائیوں تک لوڈ شیڈنگ کی نذر کرنے والے لوڈشیڈنگ پر تنقید کر رہے ہیں، اللہ اللہ!
ہمارے ملک میں ایک عجیب روایت یہ ہے کہ کوئی اپوزیشن یا اس کے حمایتی صرف اور صرف حکومت پر بات بے بات کہ تنقید برائے تنقید پر اتر آتے ہیں یا جھوٹی تنقید کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا بدنام لوگ البتہ مزید بدنام ہو جاتے ہیں۔ اپوزیشن کا مطلب ہی حکمرانوں کی غلطیوں کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے لیکن تنقید میں اگر جھوٹ ہو یا عوام کو نہ ہضم ہونے والی تنقید ہو تو اس کا اثر الٹا پڑ جاتا ہے، اس لیے محتاط اپوزیشن تنقید کو سچ اور اخلاقی حدود کے اندر رکھتی ہے۔ جس سے تنقید کرنے والے کا بھرم بھی رہ جاتا ہے اور عوام بھی مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تنقید کا تین چوتھائی حصہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ عوام بدظن ہوجاتے ہیں۔
اگر ملک جمہوری ہو تو ملک میں جمہوری اخلاقیات موثر ہوتی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ 1947 کے بعد عام طور پر کسی نہ کسی شکل میں اشرافیہ کا راج رہا اور اشرافیائی اخلاقیات سر تا پا جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ عمران خان ایک سادہ لوح انسان ہے وہ جھوٹ کی بھول بلیوں میں الجھنے سے گریزاں رہتے ہیں، یہی وہ کامیابی ہے جو ایلیٹ اشرافیہ کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔