اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کشمیرکی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ بھارت کشمیرکی حیثیت بدلنے سے گریز کرے۔ سیکریٹری جنرل نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایسے اقدام سے پرہیز کرے جس سے جموں اور کشمیر کی قانونی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔ انھوں نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ مقبوضہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی ممکن ہے۔
انتونیوگوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ بھارت اور پاکستان نے شملہ معاہدے میں طے کیا تھا کہ مسئلے کا حل پر امن طریقے سے اقوام متحدہ کے چارٹرکی روشنی ہی میں ممکن ہے۔ سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ویوجارک کے مطابق انھوں نے کہا کہ اس مسئلے پر ہمارا موقف اقوام متحدہ کا چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔
ترجمان نے اس تاثرکی نفی کی کہ سیکریٹری جنرل دو پڑوسی جوہری ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے لیے مداخلت سے گریزکر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے، عالمی ادارے کو صورتحال کا بخوبی علم ہے اور حالات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی فوج کی کارروائیوں، کرفیو اور وادی میں بھارتی فوج کی تعداد میں کئی گنا اضافے سے انسانی حقوق کی صورتحال اور خراب ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہیں جس سے جموں وکشمیر کی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔ ترجمان نے کہا کہ سیکریٹری جنرل کو پاکستانی وزیر خارجہ کا مکتوب مل گیا ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس خط کی 15 کاپیاں سلامتی کونسل کے اراکین کو بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
دریں اثناء امریکا نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ خطے میں اس فیصلے کے وسیع مضمرات ہوں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کی جغرافیائی اہمیت اور انتظامی امور سے متعلق بھارت کی قانون سازی کا بغور مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ محکمہ خارجہ کے مطابق بھارتی فیصلے سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔
امریکا اس سلسلے میں تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ انفرادی حقوق کا بھی احترام کیا جائے اور پرسکون رہیں اور ضبط و تحمل سے کام لیں جموں وکشمیر میں عوام کی گرفتاریوں اور مسلسل پابندیوں کی اصلاحات پر امریکی تشویش برقرار ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کشمیر سمیت دیگر مسائل پر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ بلاشبہ محکمہ خارجہ کے بیانوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کی خواہش پائی جاتی ہے لیکن کسی کے چاہنے سے قدم قدم پر اقوام متحدہ کی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے عادی مجرمین کی پالیسیوں میں کوئی بامعنی تبدیلیاں نہیں آسکتیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہندوستانی قیادت کو اپنے سیاسی مفادات کے علاوہ کسی متعلقہ فریق کے مفادات کا بھی خیال ہے؟ امریکی وزارت خارجہ بار بار متعلقہ فریقین سے کہہ رہا ہے کہ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جو اس خطے میں مزید مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنے۔ مسئلہ کشمیر کوئی نیا مسئلہ نہیں، اس کی تاریخ 72 سالہ پرانی ہے اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت ایک انتہائی تحفظات رکھنے والی حکومت ہے اگر بھارتی حکومت کو برصغیر اور جنوبی ایشیا کے اربوں عوام کی معاشی خوشحالی کا ذرہ برابر بھی خیال ہوتا تو وہ موجودہ صورتحال کو مزید گمبھیر بنانے کے بجائے 72 سال پرانے مسائل کو حل کرنے کو اولیت دیتی جن رہنماؤں کی سائیکی مسائل کو طاقت سے حل کرنے کی سائیکی ہے۔
یہ ایسا تضاد ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اگر بھارت میں کوئی وسیع النظر حکومت ہوتی تو اسے احساس ہوتا کہ کشمیر پر طاقت کے ذریعے قابض رہنا، اس خطے کے عوام کے لیے کیسے کیسے سنگین مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ آج کی دنیا طاقت کے استعمال سے اپنے مشترکہ مسائل حل کرنے کی دنیا نہیں بلکہ اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش مند دنیا ہے طاقت کی سیاست کو ماضی میں بھی بین الاقوامی حمایت ملی نہ آیندہ مل سکتی ہے۔
یہ بیسویں صدی نہیں ہے جس میں حکمران مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کو واحد آپشن سمجھتے تھے۔ اب دنیا کے عوام امن و ترقی چاہتے ہیں ہندوستان اور پاکستان دونوں خطے کے پسماندہ ترین ملک ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح امن اور معاشی آسودگی ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ ہمارے بعض سیاستدان آج بھی طاقت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ سیاستدان عوام کی زندگی میں معاشی بہتری اور خوشحالی کے دشمن ہیں، اس بھارتی سیاست کے پیچھے مذہبی منافرت اصل محرک ہے۔
پاکستان بھارت کے مقابلے میں فوجی حوالے سے ایک کمزور ملک ضرور ہے لیکن جوہری ملک ہونے کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایٹمی بھارت کا مقابلہ ایٹمی طاقت سے کرسکتا ہے اور یہی وہ ممکنہ صورتحال ہے جو ایک بالغ نظر قیادت کو نام نہاد قومی مفاد کے مقابلے میں امن اور خوشحالی کی طرف لے آتے ہیں۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کی مودی حکومت مذہبی انتہا پسندی پر یقین رکھتی ہے اور جس کی نظریاتی رہنمائی آر ایس ایس جیسی فاشسٹ طاقتیں کر رہی ہیں اس نظریاتی بے وقوفی کو نہ روکا گیا تو برصغیر ایک بار پھر جنگی کلچر کا خوگر بن سکتا ہے۔