ہم نے اپنی کالم نگاری کا آغاز مزدوروں کسانوں کی حمایت اور ان کے مسائل کی نشان دہی سے کیا تھا، کیونکہ یہ ایک ایسا مظلوم طبقہ ہے، جسے وڈیرہ شاہی انسان ہی نہیں سمجھتی۔
غلام داری سماج میں اس دور کی اشرافیہ نے انسانوں کو جس طرح غلام بنا کر رکھا تھا، یہ سلسلہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے، ہم نے پچھلے دنوں مزدوروں کسانوں کے مسائل پر مسلسل کالم لکھے تھے۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ایک سیاسی بادشاہ کے ولی عہد نے مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں ایک بیان داغ دیا۔ اس بیان سے ولی عہد کے غلاموں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنے سے رہی لیکن بہرحال یہ ضرور ہوا کہ ہماری مسلسل یاد دہانی سے اشرافیہ کے کانوں پر جوں تو رینگی۔
مسئلہ کسانوں کی حمایت میں ایک عدد بیان داغنے کا نہیں بلکہ کسانوں کو اس فکری غلامی سے آزادی دلانے کا ہے جو جاگیرداروں اور وڈیروں نے کسانوں کے ذہنوں پر مسلط کر رکھی ہے اس کے لیے سندھ اور جنوبی پنجاب میں موجود جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے، ہمارے ملک میں جاگیردار اور وڈیرے اس قدر مضبوط ہیں کہ انھوں نے ملک میں کی جانے والی تین زرعی اصلاحات کو ناکام بنا دیا، آج زندگی کے ہر شعبے میں ان کا راج ہے ویسے تو پاکستان میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام ختم ہو چکا ہے لیکن عملاً ابھی تک وڈیرہ شاہی نظام موجود بھی ہے اور مضبوط بھی ہے۔
ہم نے اس حوالے سے بار بار لکھا ہے کہ ایک تحقیقی کمیشن بنایا جائے جو یہ دیکھے کہ ملک میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالکوں کی تعداد کتنی ہے اور وہ کتنے ایکڑ زرعی زمین پر قابض ہیں۔ یہ کام اس لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاست پر یہ آسیب اب تک چھایا ہوا ہے ہاری اور کسان آج بھی غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
مزدور طبقہ بھی صنعتی غلاموں جیسی زندگی گزار رہا ہے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے ملوں اور کارخانوں میں ٹریڈ یونینوں کو فروغ دیا گیا تھا لیکن ملک میں مزدور کسان راج لانے کے دعویدار جاگیردار حکمران نے نہ صرف مزدوروں کو کچل کر رکھ دیا بلکہ ٹریڈ یونینز کو اس طرح ختم کیا کہ پچاس سال ہو گئے نہ مزدور آزاد ہوئے نہ ٹریڈ یونین بحال ہوئیں آج ملک کے طول و ارض میں جدھر دیکھیں ٹھیکیداری نظام نظر آتا ہے اور اس نظام میں مزدور غلاموں کی طرح کام کر رہے ہیں۔
ویسے تو ہمارے ملک میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے طبقات ہماری کل آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ ہیں لیکن مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے اور کسان دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ بتائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں طبقے محنت کش ہیں اور ہماری ضروریات کا بہت بڑا حصہ یہ دونوں طبقات مہیا کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ان دو طبقات کی زندگی اس قدر ابتر اور تباہ حال کیوں ہے۔ مزدوروں کو بمشکل ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ یہ طبقہ پیداواری عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ان دو طبقات کے مسائل پر بار بار اسی لیے لکھنا پڑتا ہے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام کی ضرورتیں پوری کرنے والے ان طبقات کی زندگی کو شدید غربت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
بھٹو مرحوم کو مزدوروں کا خیال رہتا تھا سو انھوں نے مزدوروں کو مالکان کے منافع کا حصہ دار بنایا۔ یہ سب ایک ڈرامہ تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ منظر سے غائب ہو گیا۔ آج مزدور اپنی معمولی اجرت پر زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس دوران ملک کا ایک بڑا صنعتکار ملک کا وزیر اعظم بنا لیکن مزدور طبقے کے شب و روز میں کوئی فرق نہ آیا۔
ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی شروع ہوئی لیکن محنت کش طبقے کو اس کا کوئی فائدہ نہ ملا۔ بلکہ مشروط کولمبو پلان کے تحت ملنے والی امداد مشروط تھی امریکا نے کولمبو پلان کے تحت ملنے والی امداد کو مزدوروں کو دبا کر رکھنے کی شرط لگا دی پھر کیا تھا مزدوروں سے جیلیں بھر گئیں۔ ایوب خان کے دور میں مزدوروں پر جو ظلم ڈھائے گئے ہماری مزدور تاریخ کا وہ ایک شرمناک باب بن گئے۔ روس کی پرو لتاری حکومت کی دنیا کے عوام میں مقبولیت کی وجہ امریکا کو یہ خوف لاحق تھا کہ پسماندہ ملک کہیں روس کے نقش قدم پر نہ چل پڑیں اسی خوف کی وجہ دنیا بھر میں مزدور خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں مزدور طبقے اور ترقی پسند طاقتوں کو کچلا جانے لگا۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں حسن ناصر کا بہیمانہ قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
آج پاکستانی مزدور انتہائی کربناک زندگی گزار رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ٹھیکیدارانہ نظام ہے جس نے مزدور طبقے کو قرون وسطیٰ کے غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج ملک میں ایک مڈل کلاسر کی حکومت ہے اس حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ٹھیکیداری نظام کو ختم کر کے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ جب تک قانونی طور پر محنت کشوں اور مزدوروں کا تحفظ نہیں کیا جاتا ان کے حالات میں بہتری آنے کی امیدیں بر نہیں آئیں گی اسی لیے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔