قیام پاکستان کو اب 71 سال ہو رہے ہیں، اس طویل عرصے میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ سیاست پر بھی قابض رہی اقتدار پر بھی جمہوریت کے نام پر قبضہ جمائے رہی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری جمہوریت ہمیشہ خاندانی جمہوریت بنی رہی، وقت کے ساتھ اس پر فریب جمہوریت میں جمہوری عوامل کے شامل ہونے کے بجائے خاندانی جمہوریت کو اشرافیہ نے اس قدر مضبوط کیا کہ سیاستدان ہی نہیں اگر غیر سول حکمران بھی ملک پر مسلط رہے تو بھی ولی عہدی نظام نہ صرف باقی رہا بلکہ اس میں استحکام بھی آیا اور پھیلاؤ بھی آیا۔
یہ سلسلہ اگرچہ ملک میں جاری ہے لیکن پچھلے دس گیارہ سال سے جمہوریت میں خاندانی حکمرانی کا نظام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوتا رہا کہ اس میں اولاد بھی شامل ہوتی رہی اور صف اول میں موجود ہے اور باپ کی جگہ لینے کے لیے تیار ہے۔ یہ کام نہ عارضی ہے نہ اتفاقی بلکہ عوام کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔
اس جمہوری آمریت کی سب سے بڑی وجہ عوام کو سیاست اور اقتدار سے دیس نکالا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد عشروں تک جاگیردار اور وڈیرے سیاست اور اقتدار پر قابض رہے لیکن اس دوران ایک معنوی تبدیلی یہ آئی کہ ایک آمر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک صنعت کارگھرانے کو آگے لایا اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر مسلط کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چیف منسٹری اور وزارت عظمیٰ تک پہنچ گیا اور ضرورت کے مطابق صنعت کارمافیا جاگیردار حکمران ٹولے کا "نظریاتی" پارٹنر بن گیا۔
اور دونوں ہی پارٹنر لوٹ مارکے ایک نکاتی پروگرام پر متفق ہوگئے اور لوٹ مارکا وہ سلسلہ شروع کردیا کہ بینکوں سے نکل کر غریب عوام کے اکاؤنٹ تک پہنچ گیا۔ کروڑوں اربوں کی رقمیں نامعلوم اکاؤنٹس میں جمع ہونے لگیں اس "نئے جمہوری نظام" کو بے چارے عوام ہی نہیں دنیا حیرت سے دیکھنے لگی۔ ان مافیاز نے نچلی سطح سے اوپری سطح تک ایک ایسا مددگاری نظام قائم کردیا کہ اربوں کی کرپشن بڑے آرام اور تحفظ کے ساتھ جاری رہی۔
خدا بھلا کرے اس خلائی مخلوق کا کہ اس نے لٹیرا شاہی کے مستحکم نظام میں کھنڈت ڈال دی اور ان ارب پتی خاندانوں کے خلاف احتساب کا ایک نرم سہی بامعنی سلسلہ ایسا شروع کیا کہ اشرافیہ جیلوں کی ہوا کھانے لگی۔ خلائی مخلوق نے لٹیری مافیا کو چاروں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ ان کے لیے نہ جائے رفتن باقی رہی نہ پائے ماندن کی گنجائش چھوڑی۔ اشرافیہ اس چکر میں اس طرح پھنس کر رہ گئی کہ اس سے نکلنے کے سارے راستے مسدود ہوکر رہ گئے اب اس لٹیری مافیا کا گزارا حکومت کو گالیاں دینے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور احتسابی اداروں کو کوسنا اشرافیہ کی مصروفیت ہوگئی۔
لے دے کر ایک جمہوریت کا برگد ہے، جس کی چوٹیوں سے اشرافیہ لٹکی ہوئی ہے چین میں لٹیری مافیا اس قدر مستحکم ہوگئی تھی کہ اس کے خلاف زبان کھولنا مشکل ہوگیا تھا۔ چین کے حکمرانوں نے 5 اسٹار احتساب کے بجائے گردن میں رسی کا احتساب شروع کیا اور اعلیٰ سطح کے 400 معززین کو لٹکا دیا۔ لٹیری مافیا کے سارے کس بل نکل گئے چین کو اس مافیا سے نجات مل گئی۔
ہمارے مفکرین کرپشن کی جڑوں کو افراد میں تلاش کرتے ہیں جب کہ کرپشن کی جڑیں اس معاشی نظام میں پیوست ہوتی ہیں، رائج الوقت جمہوریت کا نقیب ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپئن ہے کوئی نادان جاری جمہوریت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اشرافیہ اور اس کے چہیتے اہل علم اہل فکر، اہل دانش، اہل قلم ایسا واویلا مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حیرت ہے کہ مذکورہ بالا طبقات ریڈیو سنتے ہیں ٹی وی دیکھتے ہیں اخبارات پڑھتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ میڈیا میں اشرافیہ کی اربوں روپوں کی کرپشن کی معہ ثبوت داستانیں پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود جمہوریت کی گردان اس زور سے کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
لٹیری اشرافیہ کا سب سے بڑا ہتھیار جمہوریت ہے اور اشرافیہ ہمیشہ جمہوریت کے پردے میں چھپتی آئی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت اشرافیہ سے عبارت ہے خواہ اشرافیہ پیدائشی کرپٹ ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ہماری اشرافیہ نے آج کل ایک نیا اور دلچسپ بیانیہ اپنایا ہے۔ کہتی ہے "ووٹ کو عزت دو" ووٹر خواہ کتنا ہی بے عزت بنایا ہوا کیوں نہ ہو۔ چونکہ اشرافیہ ووٹ کی طاقت ہی سے اقتدار تک پہنچتی ہے لہٰذا اس کا نعرہ ووٹ کو عزت دو بڑا منطقی ہوتا ہے۔
ووٹ ایک ایسی پرچی ہے جو سبزی گوشت کی طرح خریدی اور بیچی جاتی ہے اور ووٹر دہائیوں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ خریدی اور بیچی جانے والی ووٹ کی پرچی کو اشرافیہ نے قابل احترام بنا دیا ہے اور ووٹ کے مالک کو اس قدر ذلیل و خوار بناکر رکھا ہے کہ اس کی حالت دیکھ کر ووٹ کی توقیرکا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔ جمہوریت اور ووٹ اس وقت قابل احترام ہوگا جب غریب کو انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابات جیت کر قانون ساز اداروں میں جانے کا موقع ملے گا۔ اشرافیہ کی منطق یہ ہے کہ غریب کا کام چوروں ڈاکوؤں کے لیے ووٹ کاسٹ کرنا ہو، غریب کو نہ انتخابات لڑنے کا حق ہو، نہ قانون ساز اداروں میں جانے کا حق ہو۔ یہ ہے وہ اشرافیہ جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی ہے اور ووٹر کو ذلیل وخوارکرتی ہے۔
اشرافیائی جمہوریت کا کھیل سینیٹ میں کھیلا کیا گیا، منتخب چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس لیے لائی گئی کہ غالباً چیئرمین سینیٹ اب قابل اعتبار نہیں رہا تھا۔ حالانکہ چیئرمین سینیٹ اشرافیہ کی حمایت ہی سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا ہے، اب سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔