پاکستان معاشی حوالے سے نہ صرف ایک غیر معمولی بلکہ خوفناک صورت حال سے گزر رہا ہے، دوست ملکوں کی بھاری امداد سے کسی حد تک معاشی صورتحال میں ٹھہراؤ آگیا ہے۔ آئی ایم ایف نے سخت ترین شرائط کے ساتھ چھ ارب ڈالر قرضہ منظورکیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے نتیجے میں عوام پر بھاری ٹیکس لگانے پڑے جس کا نتیجہ غیر معمولی مہنگائی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
مہنگائی سے عوام میں بے چینی پیدا ہونا ایک منطقی بات ہے عوام کی بے چینی سے ہماری اشرافیہ گھی کے چراغ جلا رہی ہے موجودہ حکومت کو گرانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے والی سیاسی اشرافیہ ہر قیمت پر حکومت کا ہٹانا چاہتی ہے اور حکومت کو ہٹانے کے لیے انارکی کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس نیک کام کے لیے اشرافیہ بد سے بدتر اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔
یوم سیاہ اسی مقصد کے لیے منایا گیا لیکن عوام نے سڑکوں پر آنے سے گریز کرکے اشرافیہ کے پروگرام میں کھنڈت ڈال دی۔ اب اعلان کیا جا رہا ہے کہ احتجاج رکے گا نہیں بلکہ غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔
مشکل یہ آن پڑی ہے کہ تقریباً تمام سابقہ حکمران کسی نہ کسی بھاری کرپشن کیس میں ملوث ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ میڈیا میں سیاسی اشرافیہ کی کرپشن کی جو داستانیں آ رہی ہیں وہ اس قدر حیران کن ہیں کہ عوام مہنگائی بھول بیٹھے ہیں۔ اشرافیہ کو پوری امید تھی کہ مہنگائی کے عذاب سے پریشان عوام سڑکوں پر آ جائیں گے۔ حکومت کی رات دن کی بے لوث کارکردگی کی وجہ سے عمران خان پر عوام کا اعتماد اس قدر مستحکم ہوگیا ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود اشرافیہ اس میں شگاف نہیں ڈال سکی، یہ صورتحال اشرافیہ کے لیے انتہائی مایوس کن ہے۔
اس پر ستم یہ کہ وزیر اعظم عمران خان نے دورہ امریکا کو اس مہارت سے استعمال کیا کہ ساری دنیا میں اس دورے کی واہ واہ ہو رہی ہے۔ اس دورے میں عمران خان نے ٹرمپ سے جس ہوشیاری سے بات چیت کی اس کا تاثر ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت مثبت رہا، اس دورے کو ناکام ثابت کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا لیکن کوئی حربہ کام نہ آیا صرف شرمندگی ہاتھ آئی۔
سیاسی اشرافیہ کا خیال تھا کہ لگا تار حملوں سے حکومت مایوسی کا شکار ہو جائے گی لیکن عمران خان کے اعصاب کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے اشرافیہ کے ہر حملے کا بڑے صبر و سکون سے سامنا کیا۔ اپوزیشن کے للو پنجو قدم قدم پر وزیر اعظم کی توہین کرتے رہے لیکن عمران خان بڑے حوصلے سے توہین آمیز ریمارکس برداشت کرتے رہے۔ اس حوالے سے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو زبان ملک کے وزیر اعظم کے لیے استعمال کی جا رہی ہے، وہ اس قدر رکیک ہے کہ کوئی شریف آدمی ایسی گھٹیا زبان استعمال نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن میں اسلامی اخلاقیات کے داعی بھی ہیں لیکن ان سب کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
ہر ملک میں سیاسی ضرورتوں کو قومی مفادات کے تابع رکھا جاتا ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قومی مفادات کو سیاسی ضرورتوں کے تابع رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ملک سیاسی کھیل کا میدان بن جاتا ہے۔ آج قومی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو ڈوبنے سے بچایا جائے اور تحقیق کی جائے کہ ملکی معیشت کو تباہی کے کنارے پر پہنچانے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور یہ تحقیق انتہائی غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ ہونی چاہیے تا کہ ذمے دار لوگ اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔ مشکل یہ ہے کہ شدید پروپیگنڈے میں اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے اور غلط الزام تراشی کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ملک میں پہلی بار ایک سنجیدہ احتساب کی کوشش کی جا رہی ہے جو لوگ اور جو جماعتیں کرپشن کی مرتکب کہلاتی ہیں وہ رضاکارانہ اپنے آپ کو تحقیقی کمیٹیوں کے سامنے پیش کریں اگر ایسا ہوا تو ملک میں ایک مثبت روایت کا آغاز ہوگا اور سیاست میں جو گند جمع ہوگیا ہے، اس سے چھٹکارے کا موقع ملے گا۔ اس حوالے سے ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق جن لوگوں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات میں عدالتوں میں ریفرنسز داخل ہیں وہ توسیع کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ہماری سیاسی اشرافیہ سیکڑوں حیلے بہانوں سے مقدمات کو طویل ترین کر رہی ہے اور ہمارا عدالتی نظام ایسا ہے کہ اس سے ملزمان ناجائز فائدے اٹھاتے ہیں۔ ہماری روایتی صورتحال بہت افسوسناک ہے، ایک کیس اگر آج عدالت میں آتا ہے تو اس کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں ہو جانا چاہیے تا کہ انصاف کا مقصد پورا ہو سکے اگر کیسز میں تاریخیں ملتی رہیں تو ملزم پر الزام درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ ہونے میں برسوں بلکہ عشروں کا وقت درکار ہو گا انصاف میں تاخیر کو بھی بے انصافی مانا جاتا ہے۔
حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی ہر کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ہوئی دینی مدرسوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہزاروں کی تعداد میں یوم سیاہ میں گھسیٹ کر لانے سے یوم سیاہ تو کامیاب نہ ہو سکا البتہ یوم سیاہ کی کال دینے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بد سے بدتر اپوزیشن بھی ہو گی تو اسے قومی مفادات کا خیال رہتا ہے یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ساری دنیا عمران خان کے دورہ امریکا کو کامیاب بتا رہی ہے لیکن ہماری اپوزیشن اس دورے میں ہزار کیڑے نکال رہی ہے، کیا یہ رویے حب الوطنی کی تعریف میں آتے ہیں؟ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے بھارت میں کہرام مچا دیا ہے۔
ٹرمپ کے ترجمان کہہ رہے ہیں ہمارے صدر نے جو کہہ دیا وہ کہہ دیا، ٹرمپ اپنی ثالثی کی پیشکش پر قائم ہیں۔ اس موقف کی وجہ بھارت کو اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا ایک آزاد اور غیر جانبدار پریس کی حامی ہے لیکن پریس کی آزادی کے دعویدار بھارت میں پریس حکومت کا بھونپو بنا ہوا ہے۔
پاکستان اور بھارت دو انتہائی پسماندہ ممالک ہیں، اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اچھے ہوں تو صرف دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہی سے دونوں ملکوں کی غربت میں کمی آسکتی ہے، لیکن کشیدگی اور الزام تراشی کے اس ماحول میں عقل کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ بھارت کا دانشور طبقہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے قومی مفادات کے فلسفے پر پوری طرح عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا بھارتی حکمرانوں کو اپنے نفع نقصان کا خیال بھی نہیں رہا؟