مسلم لیگ (نواز) کی سیاست کا نیا دور شروع ہو رہا ہے، اس دور میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار چچا، بھتیجی یعنی شہباز شریف اور مریم نواز نظر آرہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہیں، ان کے اس حق کوکوئی چیلنج نہیں کیا جاسکتا، مریم نواز جو سیاست کر رہی ہیں، یہ ان کی ذاتی سیاست ہے پارٹی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
سوال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کسی خاندان کی جاگیر ہے کہ اس کے لیے چچا بھتیجی میں کھینچا تانی ہوتی رہے۔ سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام کی اکثریت جسے منتخب کرے، وہی کسی عہدے پر فائز ہو سکتا ہے جب یہ طے ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ شہباز کو وزارت عظمیٰ کے لیے اس طرح پیش کریں جیسے وزارت عظمیٰ شہباز کی جاگیر ہے۔
وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کا حق صرف اس شخص کو ہوتا ہے جسے عوام کی اکثریت منتخب کرے۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں اور اس سے زیادہ ہاری کسان، اس کے علاوہ عام غریب لوگ ہیں جن کی تعداد کروڑوں میں ہے، ان لوگوں کو حق ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے جس کو چاہیں منتخب کریں۔ آج تک ہوتا یہ رہا ہے کہ اشرافیہ سیاسی جماعتیں بنا کر اور دولت خرچ کرکے بھولے بھالے عوام سے ووٹ لے کر ملک کے تمام بڑے اور اہم عہدوں پر براجمان ہو جاتے تھے چونکہ ان اشرافیائی امیدواروں کے مقابلے میں مزدوروں کسانوں اور عام لوگوں کے نمایندے کھڑے ہی نہیں ہوتے تھے لہٰذا عوام اپنے طبقاتیمخالفین کو ووٹ دے کر کامیاب کراتے تھے۔
اب مزدوروں اور کسانوں کے علاوہ عام غریب لوگوں کے بچے بھی اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اس قابل ہو رہے ہیں کہ وہ اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک اور ملک کے عوام کی خدمت کرسکیں۔ ایک نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ عام غریب آدمی احساس کمتری کا شکار رہتا ہے دوسری مشکل یہ ہے کہ اشرافیہ نے انتخابی نظام اس طرح تشکیل دیا ہے کہ انتخاب لڑنے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت پڑتی ہے جس سے غریب آدمی محروم ہوتا ہے یہی وہ مشکلات ہیں جو عام آدمی کو انتخاب لڑنے سے روکتی ہیں اور جس کا فائدہ اشرافیہ اٹھاتی ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو صرف کروڑ پتیوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس مہنگے نظام کو بدل کر ایسا نظام لانے کی ضرورت ہے جو ایک غریب لیکن اہل امیدوارکو جیتنے کے مواقعے فراہم کرسکے۔ اس حوالے سے حکومت بھی غریب امیدواروں کی مدد کرسکتی ہے اور انتخابی اخراجات میں کمی لاسکتی ہے، اس کے علاوہ بھی عام آدمی کو انتخابات میں کھڑا کرنے کے کئی طریقے نکالے جاسکتے ہیں۔
اشرافیہ پر انتخاب لڑنے کی پابندی لگائی جاسکتی ہے اگر اس حوالے سے سوچا جائے تو کئی طریقے ایسے نکالے جاسکتے ہیں کہ غریب اہل آدمی انتخاب لڑکر اسمبلیوں میں پہنچ سکے۔ ہمارے سامنے ایک زندہ مثال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے۔ نریندر مودی ایک سیاسی پارٹی کا کارکن یا لیڈر ہے اور پارٹی مودی کو امیدوار نامزد کرتی ہے۔
بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ادیب ہیں، شاعر ہیں، دانشور ہیں، مفکر ہیں، صحافی ہیں اور یہ لوگ نہ صرف انتخابات لڑکر اسمبلیوں میں جاسکتے ہیں بلکہ انتخابی نظام سے سرمایہ داروں کو باہر نکال سکتے ہیں۔ ہمیشہ کوئی نظام پہلے ایک یا چند انسانوں کا خیال ہوتا ہے اور پھر یہ خیال عملی شکل اختیارکرسکتا ہے۔
اس حوالے سے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ہر ملک میں رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا ہی سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ میڈیا میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ ہی ہیں۔ ساری بات آغاز کرنے کی ہے۔ مڈل کلاس کے دانشور اس حوالے سے نہایت اہم کام انجام دے سکتے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی پارٹیاں بنانا آسان نہیں لیکن عزم اگر پختہ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں۔
بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں چند مستقل مزاج لوگوں نے آگے بڑھ کر سیاسی پارٹی بنائی آج دلی حکومت ان کے قبضے میں ہے۔ عام آدمی پارٹی اب ایک اہم ریاست میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ یہ ابتدا میں ہماری طرح بس ایک خیال تھا جوکوششوں اور محنت سے عمل میں بدل گیا اور آج ہندوستان کی راج دھانی دلی میں حکومت کر رہا ہے۔ ہر بڑا کام ابتدا میں بس ایک خیال ہی ہوتا ہے اور ارادوں کی پختگی سے یہ خیالی عمل میں بدل جاتا ہے۔
جیساکہ ہم نے بار بار ذکرکیا ہے ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں دیہی علاقوں کی 60 فیصد آبادی کسانوں اور ہاریوں پر مشتمل ہے اتنی بڑی اکثریت انتخابات لڑنے اور جیتنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاگیرداروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی ایک بڑی طاقت ہمارے سامنے ہے لیکن ان کے پاس صرف دولت ہے، عوام کی طاقت نہیں ہے اگر مڈل کلاس کے پختہ عزم عوام اس خصوصی میں دلچسپی لیں اور میڈیا سے تعلقات بڑھائیں تو کوئی کام نا ممکن نہیں، بلاشبہ پاکستان میں ایسے پر عزم لوگ موجود ہیں جو ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں انھیں ڈھونڈنے اور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے میڈیا سے متعلق پرعزم نوجوان اگر آگے بڑھیں تو ایک موثر ابتدائی تنظیم بن سکتی ہے۔