Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wukla Baradari

Wukla Baradari

وکلا کا پیشہ اور پیشوں کے مقابلے میں بہت ذمے دارانہ ہے کیونکہ وکلا انصاف سے محروم انسانوں کو انصاف دلانے کی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں وکلا برادری خود انصاف کا قتل کرنے میں ملوث رہی ہے، اگرچہ وکلا کی اکثریت شرفا اور پر امن لوگوں پر مشتمل ہے لیکن ہر جگہ کچھ ایسے شرپسند ہوتے ہیں جو امن وامان کی فضا کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے "ہمدرد" بھی ہوتے ہیں جو امن و امان کے لیے خطرہ بنے رہتے ہیں حتیٰ کہ انسانوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس قسم کے لوگوں میں کچھ پارٹی قیادت سے "غیر معمولی عداوت " رکھنے والے ہوتے ہیں کچھ کرائے کے ٹٹو ہوتے ہیں، اس قسم کے عناصر ہر جگہ ہوتے ہیں اور عوام کی جانوں کے لیے خطرے کے علاوہ حکومتوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

11 دسمبر کو لاہور میں دل کے اسپتال میں جس بد ترین غنڈہ گردی کا ارتکاب کیا اس میں چھ مریض جاں بحق ہوگئے اس کے علاوہ جلاؤ گھیراؤ سے کئی گاڑیاں اور پولیس وین کو آگ لگا دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ پی آئی سی پر حملے سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ اعتزاز احسن ایک نامور وکیل ہونے کے علاوہ سینئر سیاستدان بھی ہیں لیکن اعتزاز احسن شرافت کی سیاست کرتے ہیں اور غنڈہ گردی کی سیاست کے ہمیشہ سخت مخالف رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے سربراہان حکومت کے چھن جانے سے سخت مشتعل اور مایوس ہیں اور ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سابق حکمرانوں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور الزامات کے حوالے سے ان کے خلاف ریفرنسز بھی داخل ہیں۔ ہمارے سابق وزیر اعظم کو اس حوالے سے ایک لمبی سزا بھی مل چکی ہے۔

سابق وزیر اعظم دل سمیت کئی بیماریوں کے مریض ہیں اور مشکل یہ ہے کہ ان کا علاج ملک کے اندر ممکن نہیں، اس لیے وہ بیرون ملک علاج کرانا چاہتے تھے جس کے لیے موصوف اور ان کے ہمنواؤں نے بے انتہا کوشش کی آخرکار عدلیہ کو رحم آ ہی گیا اور انھیں بیرون ملک علاج کرانے کی اجازت مل گئی۔ آج کل موصوف لندن میں ہیں اور امریکا جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، ملک کی جیلوں میں سنگین قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہزاروں لوگ ہیں جو جیلوں اسپتالوں ہی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں جس ملک کے سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج کی سہولتیں دستیاب نہیں۔ اب موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ جیلوں میں بیمار پڑے قیدیوں کے علاج پر بھی توجہ دے۔

بات چلی تھی پی آئی سی میں ہنگامے کی جس میں چھ مریضوں کی جانیں چلی گئیں کیا یہ فطری موت تھی یا قتل؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ ہماری وکلا برادری جب خود اس قسم کی منفی حرکات میں ملوث ہو تو مظلوموں کا ساتھ کون دے گا؟

سوال یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کا یہ کلچر ملک کے ایک معزز پیشے سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے تک کیسے پہنچ رہا ہے؟ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی ایلیٹ نے اپنی اسی قسم کی سرگرمیوں کے لیے غنڈے پال رکھے ہیں۔ اب اس میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ان کی جگہ مڈل کلاس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ شرفا نے لے لی ہے اور یہ کام نہایت جرأت اور چابکدستی سے کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں بڑے سے بڑا ناممکن سے ناممکن کام دولت کے عوض ہو جاتا ہے اور "خوش قسمتی" سے ہمارے ملک میں دولت کی فراوانی اور ریل پیل کا عالم یہ ہے کہ رکشہ ٹیکسی والوں کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے نکلتے ہیں جس کی خود انھیں خبر نہیں ہوتی۔ جب دولت کا عالم یہ ہوکہ غریب رکشہ ٹیکسی والوں کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے نکلیں تو دولت کے استعمال کا کیا حال ہوگا، اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت کہاں باقی رہتی ہے۔ تین مریضوں کا قتل ایک ایسی بھیانک واردات ہے جس کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ بلاشبہ وکالت ایک معزز پیشہ ہے وکیل مظلوموں کو انصاف دلاتے ہیں، لیکن جہاں وکیل ہی قاتل بن جائیں تو انصاف دلانے والا کون رہ جاتا ہے، یہ نہ پہلا موقع ہے نہ اتفاق، یہ ہمارے قومی کردار کا ایک حصہ بن گیا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟

ہمارا خیال ہے کہ یہ ظاہر وکلا برادری ہی اس جرم کی مرتکب نظر آتی ہے لیکن ہمارے محترم قانون میں مجرم سے بڑا مجرم جرم پر اکسانے والا ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ قتل پر اکسانے کے نام نہاد جرم میں انھیں سزائے موت دی گئی تھی۔ پی آئی سی کے تین مریضوں کا قتل بہ ظاہر وکلا برادری کا جرم محسوس ہوتا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وکلا برادری کو اس جرم پر اکسانے والے عوامل کیا ہیں۔ چیف جسٹس انصاف کے بول بالے کے لیے بہت کوششیں کر رہے ہیں مریضوں کا قتل ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے جس کے معاشرے پر سخت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس واقعے کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر چیف جسٹس اس المیے کی گہرائی سے تحقیقات کروائیں گے۔