یہ سال دو سال کی بات نہیں، تین سے زیادہ عشروں کی بات ہے۔ مولانا بھاشانی کراچی آئے تھے اور مسیح الرحمن کے مکان پر ٹھہرے تھے، ہم دوست بیٹھے مزدوروں، کسانوں کی بات کر رہے تھے کہ اچانک بھاشانی صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا " بابا کل ہمارا لانڈھی میں جلسہ رکھو، مزدوروں کو لاؤ ہم تقریر کرے گا" ہم چار دوستوں وحید صدیقی، علاؤ الدین عباسی وغیرہ نے سخت دوڑ بھاگ کرکے لانڈھی نمبر 1 کے گراؤنڈ میں جلسے کا اہتمام کیا۔
دوسرے دن صبح آدم جی کے مزدوروں کو لے کر نکلے اور ایک ایک ملز کے مزدوروں کو ساتھ لے کر گراؤنڈ پہنچے ہر طرف مزدوروں کے سر ہی سر تھے جلسہ بڑا کامیاب رہا، بھاشانی صاحب بہت خوش ہوئے۔
آج میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا سے عشروں بعد گزر رہا تھا۔ ذہن میں ماضی کی فلم چل رہی تھی میرا ہرنیا کا آپریشن ہوا تھا۔ نگریا ملز کے ساتھی وین میں آئے اور مجھے اٹھا کر لے چلے ڈاکٹر ہائے ہائے کرتے رہ گئے۔ اسی طرح ایک جگہ یونین اور انتظامیہ میں معاہدے کی بات تھی اور مزدور بضد تھے کہ میں مزدوروں کی نمایندگی کروں۔ معاہدہ ہوا اور بہت اچھا ہوا۔ سائٹ تک اس معاہدے کی بات پھیل گئی اور پھر سارے معاہدے مزدوروں کے حق میں ہوئے۔ ہمیں ان معاہدوں کا کریڈٹ ملا۔ یہ 1968 ہی کی بات ہے مزدوروں میں بڑا جوش وخروش تھا، ٹریڈ یونینز آزاد تھیں۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ مزدور، کسان راج کا نعرہ لگانے والوں کے دورہی میں مزدوروں اور کسانوں کا بیڑہ غرق ہوا۔ 1972تک اگرچہ مزدوروں کے ساتھ بڑے ظلم ہوئے بڑی نا انصافیاں ہوئیں، لیکن بہرحال مزدور یونین باقی تھیں اورکسی نہ کسی طرح فعال بھی تھیں۔ 1972 میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اسے ہم مزدوروں کی بدقسمتی کہیں یا پی پی پی کی، ٹریڈ یونین زیر عتاب آئی پہلے سائٹ پر مزدوروں پرگولیاں چلیں پھر لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں کی لاشیں گرائی گئیں۔ کہا جاتا ہے اتنے زیادہ مزدور مارے گئے کہ لاشیں اٹھانا مشکل ہو گیا۔ اسے ہم کیا نام دیں کس کو ذمے دار ٹھہرائیں کہ یہ المیے پی پی کے دور میں ہوئے۔
پیپلز پارٹی اگر سمجھداری اور صبرسے کام لیتی تو وہ المیے جنم نہ لیتے جو پی پی پی کے چہرے پرکوڑھ کے داغ بن کر رہ گئے۔ ایوب خان کے دور میں امریکا کی مدد سے صنعتی ترقی کی ابتدا ہوئی بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی ایوب خان ہی کے دور میں ہوئی۔ کولمبو پلان کے تحت امریکا نے پسماندہ ملکوں کو بھاری مالی امداد دینا شروع کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں سوشل ازم کے نعرے غریب عوام خصوصاً مزدور طبقے میں بہت مقبول ہوئے اور سوشل ازم تیزی سے غریب ملکوں میں مقبول ہونے لگا۔ سوشل ازم کی مقبولیت سے گھبرا کر سامراجی ملکوں خصوصاً امریکا نے پسماندہ ملکوں کو کولمبو پلان کے تحت بھاری امداد دینا شروع کی۔
بدقسمتی سے اس دور تک مزدوروں پر بہت ستم ڈھائے جا چکے تھے۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ 1973 میں مزدور یونینوں کا صفایا کر دیا گیا ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو گرفتارکرکے لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں بند کردیا گیا۔ گرفتار مزدوروں کو ڈنڈا بیڑی لگائی گئی۔ ڈنڈا بیڑی سمیت مزدوروں کی تصویریں اخبارات میں شایع ہوئیں۔ اس زمانے میں ایک رسالہ الفتح شایع ہوتا تھا، میں نے الفتح کے ٹائٹل پر ڈنڈا بیڑیوں سمیت مزدوروں کی تصاویر لگوائیں جو مزدوروں میں بہت دیکھی گئیں۔ مختصر یہ کہ 1973 میں پاکستان میں ٹریڈ یونین ختم ہوگئیں سیکڑوں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اس کے بعد پاکستان میں ٹریڈ یونین دوبارہ زندہ نہ ہو سکی۔
آج ٹریڈ یونین کا ذکر اس لیے آیا کہ معلوم ہوا کہ صنعتی علاقوں میں آج بھی ٹریڈ یونین کا نام نہیں لیا جاسکتا اگر کوئی مزدور ٹریڈ یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کر گیٹ کے باہر کردیا جاتا ہے، صرف مالکوں کی زیر سرپرستی کام کرنے والی ٹریڈ یونینز فعال ہیں، باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔
سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے اگر پی پی پی جینوئن ٹریڈ یونین بحال کرکے ٹھیکیداری نظام ختم کردیتی ہے تو 1973کی غلطیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے اور مزدور اس جبر کے نظام سے آزاد ہو سکتے ہیں۔
اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانا مزدوروں کا حق ہے اس حق پر ڈاکہ ڈالنے والے کسی طرح بھی مزدور دوست نہیں ہوسکتے۔ 1973 میں پی پی پی کا امیج جس طرح خراب ہوا آج اگر پی پی چاہتی ہے تو اس کا ازالہ کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی نوجوان قیادت مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کی بات کرتی ہے تو صرف اتنا کرے کہ سندھ کی ملوں سے ٹھیکیداری نظام ختم کردے، اس کی غلطیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔