امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مودی سے کشمیر میں کرفیو اٹھانے کے لیے کہیں گے۔ کشمیر سے کرفیو اٹھانا بھارت کی جمہوری ذمے داری ہے کوئی ثواب کا کام نہیں۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیریوں کو محصور کرکے قتل و غارت کا جو خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اور اس کرفیو کے حصار کو اب دو ماہ ہونے جا رہے ہیں۔
اسے اب ختم ہوجانا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں پیلٹ گنوں سے سیکڑوں کشمیریوں کو جس طرح زخمی اور قتل کیا جا رہا ہے کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ایسی شرمناک کارروائیاں کریں جو اپنا حق خودارادی مانگ رہے ہیں؟ کشمیر پچھلے ماہ تک ایک متنازعہ علاقہ تھا اور اقوام متحدہ نے اس مسئلے کا حل رائے شماری تجویزکیا تھا۔
بھارت کے عیار حکمرانوں نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا ایک لازمی حصہ بنادیا۔ کیا کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کاغذی کارروائیوں کے ذریعے ختم کرنے سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم ہوجائے گی؟ ایسا ممکن نہیں جب تک ایک کروڑ سے زیادہ کشمیری موجود ہیں کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم نہیں ہوسکتی اس ٹھوس حقیقت کے خلاف کاغذی کارروائیوں کے ذریعے زبردستی کے تیر چلانا نہ کشمیری عوام کو پسند ہے نہ عالمی برادری ہی اسے قبول کرے گی۔
بھارتی حکومت 8 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیر پر قابض ہے اگر کشمیری عوام بھارت میں شامل ہونا چاہتے تو انھیں نہیں روک سکتا تھا لیکن جب وہ بھارت کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے توکوئی مائی کا لال انھیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مودی انکار نہیں کرسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 72 سال کے دوران اگر بھارت کا رویہ دوستانہ ہوتا تو کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہ ہوجاتے؟
جبر اور ظلم سے کسی قوم کو ساتھ نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بار بار اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ ہندوستان کا حکمران طبقہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ طاقت کے ذریعے کسی قوم کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جاسکتا۔ بھارت کا حکمران طبقہ دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے یہ تاویل پیش کرتا ہے کہ اگر کشمیریوں کا مطالبہ مان لیا جائے تو اس سے بھارتی سیکولر ازم کو نقصان پہنچے گا۔
یہ منطق اس صورت میں درست مانی جاتی جب بھارت واقعی ایک سیکولر ملک ہوتا۔ بھارت کا سیکولر کردار پنڈت نہرو کے ساتھ ہی ختم ہوگیا جو بھرم قائم تھا وہ بھی نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ختم ہوگیا اب سیکولر تو کیا بھارت ایک لبرل ملک بھی نہیں رہا اب بھارت ایک مذہبی ملک ہے جس کا قومی تشخص ہندوتوا بن گیا ہے۔ کیا اس ٹھوس حقیقت کے سامنے عالمی سطح پر سیکولر ازم کا ناٹک چل سکتا ہے؟
عمران خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران دنیا کے رہنماؤں کو کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم سے جس طرح آگاہ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کئی ممالک کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے سخت خلاف ہوگئے ہیں اور کھل کر حق خود ارادی کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہ بھارتی حکمرانوں کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی کی دلیل ہے۔ کیا 70 ہزار کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد بھارت کے ساتھ رہنا پسند کرسکتے ہیں؟ اگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے تو پھر بھارتی حکومت کو دو ماہ سے کشمیر میں کرفیو کیوں مسلط کرنا پڑتا۔ آج کا میڈیا سیکنڈوں میں ایک خبر ساری دنیا تک پہنچا دیتا ہے کیا دو ماہ کے کرفیو کی خبریں دنیا تک نہیں پہنچ رہی ہیں؟
ان کی مذہبی انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ گائے ذبح کرتے نہیں بلکہ گائے ذبح کرنے کے شک میں مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ جب کہ مسلم مذہبی روا داری کی بے مثالیت کا عالم یہ ہے کہ ایک ہزار سال تک مسلمان بھارت پر حکومت کرتے رہے لیکن مذہبی انتہا پسندی کی سوائے اورنگ زیب عالمگیر کے کسی اور حکمران سے شکایت نہ رہی۔ کیا ظلم وجبرکے ساتھ ایک ہزار سال تک کسی قوم پر حکومت کی جاسکتی ہے؟
دنیا کی بڑی طاقتوں کا رویہ ان کے معاشی اور سیاسی مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے تجارت سمیت بہت سارے شعبوں میں دنیا بھارت کے ساتھ منسلک ہے اور دنیا کی آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہونے کی وجہ دنیا کے ملک بھارت سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے جب بھارت اور پاکستان سے تعلقات کی بات ہوتی ہے تو معاشی مفادات کی خاطر بھارت کو ترجیح دینا دنیا کی ضرورت بن جاتا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں اگر بھارت سے دنیا کے ملک اپنے تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ایک ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی ہے۔ دنیا آج دہشت گردی سے خائف اور بے زار ہے بلاشبہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی لائق مذمت ہیں لیکن برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ کشمیر ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا باعث بنے ہیں اگر کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ نہ ہوتا تو مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا وجود نہ ہوتا۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز ٹرمپ کی شاہانہ آفر سے کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ میں مودی سے کرفیو ہٹانے کے بارے میں بات کروں گا۔ بات کرنے کا ایک طریقہ ذمے دارانہ ہوتا ہے دوسرا طریقہ رحم دلانہ ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا انداز ذمے دارانہ نہیں تھا بلکہ رحم دلانہ تھا کشمیری عوام اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں کسی کی ہمدردی کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں۔
ٹرمپ بلاشبہ ایک سپر پاور کے سربراہ ہیں انھیں دنیا کے مسائل میں دخل دینا چاہیے لیکن یہ دخل آبرومندانہ اور منصفانہ ہونا چاہیے ثواب دارین والا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کی لڑائی اپنے جائز حق کے لیے ہے اور جائز حق کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کی حمایت بھی مہذبانہ ہوتی ہے۔ 70 ہزار انسان جس لڑائی کے لیے جان دے چکے ہیں اس کی عظمت کے بارے میں نہ دو رائے ہوسکتی ہیں نہ اس کے بارے میں گناہ یا ثواب کے حصول کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ نہ ہمدردی کے جذبات کا۔
حقوق کی لڑائی قابل احترام ہوتی ہے اور اس کا ذکر بھی قابل احترام طریقوں سے ہونا چاہیے۔ یہ لڑائی سال دو سال سے نہیں بلکہ 71 سال سے لڑی جا رہی ہے اور جس لڑائی میں 70 ہزار انسان اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اس کے لڑنے والوں کے لیے انصاف ایک ایوارڈ تو ہوسکتا ہے خیرات نہیں ہوسکتی۔
70 ہزار انسان جس آزادی کی جنگ میں شہید ہوگئے ہوں وہ لڑائی قابل فخر ہوتی ہے قابل رحم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ بلاشبہ ایک سپر پاور کے سربراہ ہیں ان کی ذمے داری تھی کہ وہ ایک حق کی لڑائی کی جس باوقار طریقے سے حمایت کی جاتی ہے اس طرح اس لڑائی کی حمایت کرتے نہ کہ بے دلی سے فرض نمٹانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ طریقہ اپناتے۔