اپوزیشن کے پاس ملک کی بہتری کا نہ ماضی کے دس سالوں میں کوئی پروگرام تھا نہ اب ہے۔ اس کی سیاست صرف حکومت پر تنقید پر کھڑی ہوئی ہے، ابھی پچھلے دنوں چینی کی برآمد کے حوالے سے جو اسکینڈل منظر عام پر آیا وہ اس لیے قابل مذمت ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ رہنما بھی اس میں ملوث نکلے ہیں۔ جب سے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے کوئی مائی کا لال حکومت پر کرپشن کے الزامات نہ لگا سکا۔ لیکن حکومت میں فرشتے نہیں انسان ہی ہیں اور بشری کمزوریاں سرمایہ دارانہ نظام میں بڑے دھڑلے سے ظاہر ہوتی ہیں۔
چینی کی برآمد کا مسئلہ تھا سو حکومت کے اعلان کے پس منظر میں کہ برآمد کنندگان کو ریبیٹ ملے گا سو پی ٹی آئی کے کچھ ارکان بھی برآمدی ریبیٹ حاصل کرنے کے خلاف قانونی اقدامات کرکے برآمدی ریبیٹ حاصل کیے۔ یہ ایک جرم ہے اور پی ٹی آئی کے حکمرانوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ اس اسکینڈل میں پی ٹی آئی کے بعض ایسے سینئر لوگ شامل ہیں جو جماعتی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیسہ مخلص لوگوں کے ایمانوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا سبب بنتا ہے۔ چینی اسکینڈل میں سبسڈی حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے ارکان اپوزیشن کے راستے پر چل کر حکومت کی بدنامی کا سبب بن گئے۔ سمجھدار لوگ اس کیس کو دبا دینے کے لیے عمران خان پر زور ڈالتے رہے لیکن انھوں نے کسی کی بات سنے بغیر کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تادیبی اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔
ملک میں کورونا وائرس کی وجہ خوف و دہشت کا عالم ہے یہ بات قابل اطمینان ہے کہ حکومت کی بروقت اور مسلسل حوصلہ افزائی کی وجہ سے ملک میں پینک نہیں پھیلا لیکن مغربی ملکوں کے حوالے سے خاص طور پر اٹلی، امریکا، اسپین اور جرمنی وغیرہ کے حوالے سے کورونا کی تباہ کاریوں کی جو داستانیں میڈیا میں آ رہی ہیں اس کی وجہ پاکستان، ہندوستان سمیت ساری دنیا میں ایک دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے ایک خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے عوام سخت خوفزدہ ہو رہے ہیں ایسے حالات میں اقتدار کی بھوکی اپوزیشن حکومت پر بے جواز تنقید کے کوڑے برسا رہی ہے جس کی وجہ ایسے موقعوں پر ایک قومی یکجہتی کا جو ماحول ہونا چاہیے وہ نہ بن سکا۔
موجودہ خوفناک حالات میں جب کہ پاکستان کے کئی شہروں میں ہر روز اموات کا سلسلہ جاری ہے، اپوزیشن خلفشار میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو کورونا سے ہونے والی اموات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں اگر اپوزیشن کو کوئی فکر ہے تو بس یہ ہے کہ اقتدار کیسے حاصل کیا جائے۔ اس حوالے سے نام نہاد اپوزیشن ہر حیلے ہر بہانے حکومت کو نشان ملامت بنا رہی ہے جسے عوام ایک منفی رویہ سمجھ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کورونا کے زیادہ پھیلنے کے امکانات میں کیا سیاسی جماعتوں کا مخالفانہ رویہ قابل تعریف ہے؟
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملیں اور کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ حکومت ایسی نازک صورت حال میں فی خاندان بارہ ہزار روپے امداد دے کر بھوکے عوام کی جس طرح دلجوئی کر رہی ہے وہ قابل تعریف ہی نہیں قابل فخر ہے لیکن ایسی نازک صورتحال میں اپوزیشن کو قومی یکجہتی پیدا کرنے کے بجائے قومی انتشار پیدا کرکے کس کی مدد کر رہی ہے؟ بھارتی حکومت ایسے نازک موقع پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے اور لائن آف کنٹرول پر بدامنی پھیلا کر جس ملک دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ سخت قابل مذمت ہے۔
حکومت نے اس وقت کورونا جیسی خطرناک وبا کو ملک کا اہم ترین بلکہ سنگین ترین مسئلہ بناکر عوام کے حوصلے بڑھا رہی ہے، وہ ہر اعتبار سے قابل تعریف ہے۔ عوام کے پاس نہ پیسہ ہے نہ ملازمت، ایسی صورت حال میں حکومت کے لیے جو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ دیہاڑی دار مزدوروں کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ ایک تو کنسٹرکشن کا کام بند ہے، عوام گھریلو کام بھی ان حالات میں کرانے کے لیے تیار نہیں، نتیجہ دیہاڑی دار مزدوروں کی بے روزگاری کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ حکومت نے بڑی مشکلوں سے مزدوروں کو فی خاندان بارہ ہزار روپے دینے کا بندوبست کیا لیکن مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیکڑوں مزدور گھرانے بارہ ہزار کی امداد سے بھی محروم ہیں اور مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔
اس وقت ساری دنیا میں ایک بھونچال آیا ہوا ہے، کرہ ارض پر رہنے والا ہر فرد دہشت زدہ ہے ایسے خوف کے عالم میں ملکی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر بلاول بھٹو جو مثبت بیانات دے رہے ہیں اس سے قومی یکجہتی کی راہ ہموار ہو رہی ہے، اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے بیانات منفی اور مایوسی کن ہیں۔ اس پارٹی کے منفی رویوں کی ایک وجہ یہ ہے کہ (ن) لیگ کی جگہ پی ٹی آئی حکومت نے لے لی ہے لیکن یہ بات قابل حیرت ہے کہ جمہوری ذرائع سے آنے والی تبدیلی کی مخالفت انتہائی مایوس کن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا ورد کرنے والے جمہوری تبدیلی کے مخالف کیوں ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پاکستان سمیت ساری دنیا کورونا کے خوف میں مبتلا ہے، دنیا بھر کے انسان کورونا کے خوف میں مبتلا ہیں۔ آج مسئلہ عوام کی موت اور زندگی کا ہے۔ بے چارے عوام سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں دشمنیاں چھوڑ کر کورونا کے خلاف ایک پیج پر آجائیں اور خوفزدہ عوام کی ہمت بڑھائیں اور دلجوئی کریں۔ یہ بات بڑی مثبت ہے کہ عمران خان ایک طرف کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف بھوکے عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات بڑی دلخراش ہے کہ عام آدمی لاک ڈاؤن کی سخت خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ انتہائی ہولناک نکل سکتا ہے۔