ہم نے ناموافق اقتصادی صورتحال کی وجہ سے مہنگائی سمیت بہت سارے مسائل کو صبر و سکون سے برداشت کرنے کا مشورہ اس لیے دیا تھا کہ حکومت ایمانداری سے عوامی مسائل کو حل کرنے میں لگی ہوئی ہے، لیکن مہنگائی کا گراف حد سے زیادہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور بے چارے عوام بڑے صبر وسکون سے اس مصیبت کو برداشت کر رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ مہنگائی سمیت دیگر عذاب سے جان چھڑائی جائے تاکہ اب عوام صبر و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ عوام کے صبر کی حد ہو رہی ہے اس سے زیادہ صبر عوام کے بس کی بات نہیں، اس عذاب کو سہنا صرف عوام کی ذمے داری نہیں ہے اب "خواص" کو بھی اس عذاب میں شامل ہونا چاہیے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ارب پتی اشرافیہ کو اتنی ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے؟ اشرافیہ چند افراد پر مشتمل نہیں ہے، لٹیرے حکمران طبقے نے عوامی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اشرافیہ بے دھڑک لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے؟ کیا اس آسیب کو ختم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اشرافیہ پر سیکڑوں ارب لوٹ مار کے معہ ثبوت الزامات لگائے جا رہے ہیں کوئی اس کا نوٹس لینے والا نہیں ہے۔
حالات غیر معمولی ہوں تو غیر معمولی اقدام کرنا ضروری ہوتا ہے درجنوں اشرافیائی کارندوں پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ثبوت کے ساتھ پیش کرنے کے اعلانات لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کا تیزی کے ساتھ نوٹس لینے کے بجائے مقدمات میں توسیع کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اگر مقدمات میں توسیع کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر فیصلوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انصاف میں دیری بھی ناانصافی کے زمرے میں آتی ہے۔ آئے دن اشیائے صرف کی قیمتوں کا سلسلہ جاری ہے عوام کا صبر جواب دے رہا ہے اب قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
حزب اختلاف جو کچھ پہلے تک سخت دباؤ میں تھی اب نہ صرف دباؤ سے باہر ہے بلکہ اب جارحانہ سیاست کر رہی ہے اس رجحان کو سختی سے نہ روکا گیا تو پھر حزب اختلاف کے بجائے حکومت کو اپنا دفاع کرنا پڑے گا جس کا نتیجہ سخت مایوسی کی شکل میں نکل سکتا ہے اگر عوام ایک بار مایوسی کے دلدل میں پھنس جائیں تو اس دلدل سے عوام کو نکالنا مشکل ہوجائے گا۔ مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کو اب ختم ہونا چاہیے۔
دولت بری بلا ہے جس کا مشاہدہ ہم رات دن کر رہے ہیں۔ آج ساری دنیا دولت کے فسوں میں جکڑی ہوئی ہے چھوٹے کام سے لے کر بڑے کام تک رشوت کے بغیر چل نہیں سکتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ لوگ وہ جماعتیں جن کے ایجنڈے میں رشوت اور لوٹ مار پہلے نمبر پر ہے۔
ان جماعتوں ان لیڈروں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان بلاؤں کا پہلی فرصت میں جائزہ لیں اور انھیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کریں کیونکہ اشرافیہ کی لوٹ مار سے تنگ آئے ہوئے عوام اب رشوت کے جال میں پھنسے رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں، نہ مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔ عوام کا صبر جواب دینے سے پہلے ان مسائل کا خاتمہ ضروری ہے جو عوام کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔
اشرافیہ برملا کہہ رہی ہے کہ حکومت کو گرانا ہماری اولین ترجیح ہے اور اس نیک کام کے لیے اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ دولت سرمایہ دارانہ نظام میں ہر مسئلے کا حل مانی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جب تک باقی ہے دولت سیاست جماعتوں کے مسائل حل کرتی رہے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سیاست اور رشوت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں جب تک ایماندار سیاسی پارٹیوں کو اس کا ادراک نہ ہو حالات بہتر ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
سیاست میں اقتدار ووٹ کا مرہون منت نہیں ہوتا ہمارے سیاست کار ووٹ کو عزت دو کے جو نعرے لگا رہے ہیں وہ عوام کو دھوکا دینے کا ایک شائستہ طریقہ ہے۔ ووٹ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جو بیچا اور خریدا جاسکتا ہے ہماری اشرافیہ ووٹر کو عزت دو کے نعرے کیوں نہیں لگاتی۔ اشرافیہ جانتی ہے کہ جس دن عوام عزت نفس سے واقف ہوجائیں گے اشرافیہ بے عزت ہوجائے گی۔
سرمایہ دارانہ نظام میں عزت کا تعلق براہ راست دولت سے ہے اور سیاست میں سارے کھیل دولت کے بل بوتے پر کھیلے جاتے ہیں۔ اشرافیہ کی دولت کے پَر کاٹنے تک سیاست غلاظت سے پاک نہیں ہوسکتی اس حقیقت کو سمجھے بغیر مخلص لوگ نہ کوئی اسٹرٹیجی بناسکتے ہیں نہ ایماندارانہ سیاست متعارف کراسکتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست دولت کا کھیل ہے لیکن ایسے لوگ سیاست میں موجود ہیں جو سیاست سے دولت کو نکال باہر پھینک سکتے ہیں بشرطیکہ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہوں۔ اگرچہ ایسے لوگوں کا قحط ہے لیکن ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ یہ سرپھروں کا کام ہے اور سر پھرے جس کام کی ٹھان لیتے ہیں وہ کام ہر حال میں کرکے رہتے ہیں۔