وسیب کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے شہروں کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں گزشتہ روز سرائیکی کلچرل ڈے کی تقریبات منائی گئیں، ملتان میں بہت بڑی تقریب کا اہتمام ہوا اورعلاقائی جماعتوں نے ملکر یہ دن منایا، پارلیمانی جماعتوں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔ شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے خوبصورت رنگ بکھیرے اور اہل وطن کو محبت کا پیغام دیا۔ اس موقع پر میں اجرک کے حوالے سے عرض کروں گا کہ بہار رُت میں جب درختوں پر نئی کونپلیں نکلتی ہیں، پھول رنگ اور خوشبوئیں بکھیرتے ہیں توموسم دلکش اور سُہانا ہوتا ہے اور جب موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے، سردی چلی جاتی ہے دھوپ میٹھی ہو جاتی ہے تو جذبات بھی مچل جاتے ہیں۔ اس موقع پر صرف انسان ہی نہیں ہر شئے محو رقص نظر آتی ہے۔ اس سہانی رُت میں مورخہ 6مارچ کو وسیب کے واسی ہر سال سرائیکی اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور پوری دنیا کو محبت اور امن کا پیغام بھیجتے ہیں۔ اجرک کا لفظ عربی لفظ "ازرق" سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں نیلا رنگ۔ سندھیوں نے بھی سندھی اجرک کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ جب عرب افواج علاقے میں داخل ہوئی تو مقامی باشندوں نے نیلی چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور وہ ان چادروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ ازرق، ازرق کے الفاظ ادا ہوئے۔ پھر۔ کا حرف۔ میں تبدیل ہوا اور یہ اجرک کہلائی جانے لگی۔ سرائیکی اجرک اس لئے بھی پھیلی ہے کہ زمین و آسمان کا بنیادی رنگ نیلا ہے اور یہ رنگ صوفیاء کا رنگ ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔
کچھ ناقدین بھی ہیں میں نے ان کو بتایا کہ یہ سندھی اجرک کے مقابل نہیں بلکہ اس کے متبادل ہے کسی کو ناراض ہونے کی اس بناء پر ضرورت نہیں کہ جس طرح سندھیوں کی شناخت ہے ہم بھی شناخت رکھتے ہیں اور ہماری یہ شناخت آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آ رہی ہے، وسیب کے لوگوں نے اپنی شناخت کو ایک بار پھر سے زندہ کیا ہے یہ صرف وسیب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے ایک تحفہ بھی ہے اور پاکستان کی ثقافتی طاقت بھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اجرک کے اجرا کا اعزاز بندہ ناچیز کوحاصل ہوا لیکن اسے فروغ دینے میں وسیب کے ادیب، شاعر، دانشور اور فنکار کسی سے پیچھے نہیں۔ نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طالبعلم تو اجرک کے دیوانے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کوئی ایسی تقریب نہیں جو سرائیکی اجرک کے بغیر ہو۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اجرک کو فروغ دینے میں تعلیمی اداروں کا بہت کردار ہے، خصوصاً وسیب سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنس یہ تہوار جوش و خروش سے مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو اجرکیں پہناتے ہیں۔ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی میں بہت بڑا ایونٹ ہوا، اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں گزشتہ ماہ ہونیوالے فکر فرید سیمینار میں مہمانوں کو اجرکیں پہنائی گئیں، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ماہ رواں میں عالمی سطح کی ادبی تقریب منعقد کررہے ہیں، اس موقع پر انہوں نے سرائیکی کلچرل شو کا خصوصاًاہتمام کیا ہے، اس موقع پر مہمانو ںکو سرائیکی اجرکیں پہنائی جائیں گی جوکہ خوش آئند قدم ہے اور دیگر اداروں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے۔
اجرک کی پذیرائی کے سلسلے میں عرض کروں کہ لوک ورثہ اسلام آباد میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں سندھی اجرک کے ساتھ ساتھ سرائیکی اجرک بھی موجود تھی، یہ اجرکیں حیدر آباد سے بن کر آئی تھیں۔ میں نے رب کا شکر ادا کیا اور میں نے دوستوں کو بتایا کہ یہ وہی صاحب ہیں کہ جب میں سرائیکی اجرک بنوانے حیدر آباد گیا تو انہوں نے سرائیکی اجرک بنانے سے نا صرف انکار کیا بلکہ اجرک کا سیمپل پھینک کر کہا کہ یہ نہیں چلے گی کہ یہ سندھی اجرک کے مقابلے کیلئے ہے۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ یہ مقابل نہیں متبادل ہے اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں یہ چلے گی نہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ رکے گی نہیں کہ یہ عظیم قوم کی پہچان ہے۔ لیکن اس صاحب کا غصہ کم نہ ہوا میں واپس آگیا لیکن آج ہمارے سندھی بھائی سرائیکی اجرک خود فروخت کر رہے ہیں، یہ عظیم کامیابی ہے۔ ایک واقعہ یہ ہوا کہ سندھی اجرک کے سٹال پر ایک انگریزجوڑا آیا، دکاندار نے ان کو سندھی اجرک کے ڈیزائن دکھائے، سعید اختر سیال، غلام فرید صاحب اور میں نے سرائیکی اجرکیں پہنی ہوئی تھیں تو انگریز جوڑے نے دکاندار کوسندھی اجرک واپس کرتے ہوئے کہا "Its very beautifull"۔ پھر انہوں نے سندھی کی بجائے سرائیکی اجرک لی۔ ایک لحاظ سے یہ ایک فیصلہ تھا کہ سرائیکی اجرک بہت خوبصورت ہے۔
سرائیکی میں کہا جاتا ہے کہ "لکھیا لوہا، اَلایا گٖوہا" یہ سرائیکی کہاوت پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے۔ وسیب کے اُردو اخبارات، رسائل اور سرائیکی اخبار جھوک کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات میں بھی اجرک کے بارے میں مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ اخبارات ہر سال اجرک ڈے پر خصوصی سپلیمنٹ بھی شائع کرتے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی وی، ریڈیو اور پرائیویٹ چینلز پر بھی سرائیکی اجرک کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو حد ہو چکی ہے۔ سرائیکی وسیب کا جو بھی شخص سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ نیلی اجرک کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ پروموٹ کر رہا ہے۔ وسیب کے شعراء کرام نے اجرک کے بارے میں نظمیں اور گیت لکھے ہیں جن کو وسیب کے گلوکاروں نے خوبصورت دھنوں پر گایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف سرائیکی اجرک کا چرچا ہے اور اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے نہ صرف وسیب بلکہ ملک کے تمام بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک جہاں وسیب کے لوگ آباد ہیں اجرک کا تہوار خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اب وسیب میں حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب لوگ ملتانی سوہن حلوے یا ملتانی کڑاھی کے ملبوسات کی بجائے ملتانی اجرک تحفے میں دیتے ہیں اور مہمان چاہے کسی سے صوبے سے آئے یا بیرون ملک سے آیا ہو اسے اجرک ہر صورت پہنائی جاتی ہے۔