میرا اصل موضوع ملکہ ترنم نور جہاں ہے مگر میں مہنگائی کے بارے میں گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرانے کے بعد بجلی بھی مزید مہنگی کر دی، حالیہ ہفتہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.67فیصد اضافے کے بعد مہنگائی کی ہفتہ وار شرح 15.21فیصد، کم آمدن والے افراد کیلئے مہنگائی کی شرح 16.43فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
اس حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں 28 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جن میں ٹماٹر، چینی گھی، آٹا، آلو، مٹن، لہسن، گڑ، ایل پی جی سلنڈر شامل ہیں، سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف شدید احتجاج کیا، اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو بھی اور شیم شیم کے نعرے لگائے۔
یہ الزام بھی لگایا کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہے، مہنگائی سے عوام کا زندہ رہنا محال ہو چکا ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی تباہی تقریروں اور الزامات سے ختم نہیں ہو گی اس بارے حکومت کوعملی طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ عوام کا صبر جواب دے جائے گیا تو حالات خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
کسی بھی قوم کے فنکار اس کا سرمایہ ہوتے ہیں، نور جہاں بھی پاکستان کا اسی طرح سرمایہ ہیں ان کا 1965ء کی جنگ کے موقع پر گایا جانے والا پنجابی نغمہ" اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے " اتنا بڑا کام ہے کہ پوری پاکستانی قوم مل کر بھی اس کا صلہ نہیں دے سکتی۔ میدان جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار جذبہ اور حوصلہ ہوتا ہے، حوصلے کا مورال ہتھیاروں سے نہیں ملی نغموں سے بلند ہوتا ہے، یہ کام نور جہاں اور دوسرے فنکاروں، شاعروں اور لکھاریوں نے کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آواز کی دنیا حدود و قیود سے آزاد ہوتی ہے، اسے نہ واہگہ بارڈر روک سکتا ہے نہ امروکہ بٹھنڈا۔ ہوا اور خوشبو کی طرح سارا جہاں اس کا وطن ہوتا ہے مگر آواز کی ملکہ جہاں رہتی ہے وہ اس جگہ کا فخر ہوتی ہے، اگر فن کی دنیا میں آئیں گے تو فنکار کے فنی محاسن پر بات ہو گی نور جہاں نے کبھی متقی، پرہیز گار، بزرگ یا معاف کیجئے گا ولی اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، نو سال کی عمر میں گلوکارہ بننے والی اور شادی سے پہلے بھارت میں 40 فلموں میں اداکاری کرنے والی نور جہاں کو بعد ازاں گلوکاری نے بہت شہرت دی۔
اب میں بات کروں گا " پیاسی روح " کی۔ چند سال قبل کی بات ہے، کراچی میں سرائیکی رہنما غلام مصطفی خان مرحوم کے ہاں قیام پذیر تھا، خان صاحب نے کہا آج آپ کو کہاں کی سیر کرائیں؟ میں نے کہا ڈیفنس قبرستان کی۔ خان صاحب نے بے تابی سے کہا خیر تو ہے؟ میں نے کہا میں نور جہاں کی قبر پر جانا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا لئے چلتے ہیں لیکن یہ تو بتایئے کہ پنجابی مغنیہ سے اچانک کس طرح عقیدت ہو گئی؟
میں نے کہا اچانک والی بات بھی نہیں اور عقیدت والی بھی نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ نور جہاں کو دفن قصور میں ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس کی جنم بھومی ہے یا پھر لاہور میں کہ اس نے ساری زندگی لاہور میں گزاری، ان کا اصل اور صحیح حوالہ پنجابی زبان اور پنجاب ہے، نہ جانے کیوں پنجاب کے حکمرانوں اور پنجاب کی اشرافیہ نے اس طرف توجہ نہ دی۔
مرحوم غلام مصطفی خان سے یہ بھی کہا کہ میں نے پنجاب والوں میں عجیب طرح کی حماقت دیکھی ہے۔ خواجہ فرید کو بھی پنجابی شاعر قرار دے ڈالیں گے مگر جو چیز ان کی اپنی ہے اس کی پرواہ نہیں کریں گے جیسا کہ نور جہاں اور خود پنجابی زبان۔
خان صاحب نے گاڑی گیراج سے نکلوائی ہم چل پڑے، خان صاحب نے سوال کیا کہ گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ نور جہاں کا مدفن یا مزار پنجاب میں ہو، میں نے کہا ہاں! ایسا ہونا چاہئے۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور ہم باتیں کر رہے تھے۔
غلام مصطفی کہہ رہے تھے کہ نور جہاں کا بیٹا صادق پبلک سکول بہاولپور میں پڑھتا تھا کہ ان وقتوں میں لاہور میں اس کے معیار کا کوئی سکول نہ تھا اور بہاولپور میں وہ اپنے بیٹے کو ملنے آتیں تو انکا قیام پیپلزپارٹی کے ملک حبیب اللہ بھٹہ جو ایک خوبصورت اور وجیہہ انسان تھے کہ ہوٹل پر ہوتا، پھر وہ کہنے لگے کیا یہ درست ہے کہ نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا؟
میں نے بتایا کہ نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی نہیں، اللہ رکھی تھا وہ 22 ستمبر 1926ء کو قصور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق پردہ دار گھرانے سے تھا وہ سات بہن بھائی تھے، ان کا ایک بھائی کلکتہ میں تھا، وہ موسیقی کا دلدادہ تھا، اس کے پاس گرامو فون تھا اور بہترین گلوکاروں کے ریکارڈز کا ذخیرہ۔ نور جہاں نے مختار بیگم اور اختری بائی فیض آبادی جیسی آوازوں کو سنا تو اس پر موسیقی کا عشق سوار ہو گیا، اللہ رکھی نے پھر خود ہی گانا شروع کر دیا، پھر موسیقار استاد غلام محمد قصوری کی شاگردی اختیار کر لی، کچھ عرصہ بعد اللہ رکھی اپنی بہن ممتاز کے ساتھ کلکتہ چلی گئی، وہاں انکو کجن بائی کی سرپرستی حاصل ہو گئی، انہوں نے ا س کا نام اللہ رکھی سے بدل کر نور جہاں رکھا۔
نور جہاں کو 1965ء کی جنگ میں عظیم خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کاکردگی اور " ملکہ ترنم " کا خطاب ملا۔ وہ آج اپنے نام سے زیادہ اپنے خطاب سے پہچانی جاتی ہیں، ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ ڈیفنس کا قبرستان آ گیا، ہم نور جہاں کی قبر پر پہنچے تو قبر ایک طرف بارش کے پانی سے بیٹھی ہوئی تھی اور قبر کے کتبے پر تاریخ وفات 23دسمبر 2000ء درج تھی، میں نے ذہن پر زور دیا تو مجھے تاریخ وفات نو رجہاں کی نہیں حکمرانوں کی سوچ کی نظر آئی، پھر مجھے علامہ اقبال کا مصرعہ یاد آیا کہ " ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بے زار " اور پھر میں نے دل کی آنکھ سے دیکھا تو مجھے قبرکے اندر اپنی ماں دھرتی سے دور تڑپتی ہوئی " نور جہاں ایک پیاسی روح " کے طور پر دکھائی دی۔