معروف کلاسیکل و فوک سنگر اللہ دتہ لونے والا کی وفات سے ہونیوالا خلاء کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ اللہ دتہ لونے والا کا تعلق موسیقی کے گھرانے سے تھا اور انہوں نے فن کے حصول کیلئے بہت محنت اور ریاضت کی۔ اللہ دتہ لونے والا 1957ء کو میاں سانتا خان کے گھر قصبہ لونے والا چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدائشی فنکار تھے اور ان کا بچپن سے موسیقی کی طرف رجحان تھا لیکن اُن کے والد کا شوق تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور ڈاکٹر بن کر اپنے وسیب کی خدمت کریں۔ انہوں نے سکول میں تعلیم حاصل کی اور وہ بزم ادب کے بھی انچارج رہے اور اپنی خوبصورت آواز سے سکول کے دنوں میں ہی نام پیدا کر لیا۔ سکول تحصیل، ضلع اور پھر صوبائی سطح کے مقابلوں میں بھی انہوں نے حصہ لیا اور ہر جگہ اوّل ٹھہرے۔ اللہ دتہ کو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے بے پناہ محبت تھی اسی بناء پر انہوں نے اپنی جنم بھومی کو اپنے نام کا حصہ بنایا اور وہ لونے والا کے نام سے معروف ہوئے۔
موسیقی میں اُن کے استاد محمد نظامی تھے۔ موسیقی کی مزید تعلیم کیلئے ان کے استاد نے اُن کو معروف کلاسیکل گائیک میاں عیسیٰ کے پاس اوکاڑہ بھیجا وہ بھی بزرگ تھے اور اُن کے بیٹے طالب حسین بھی موسیقی کے استاد تھے۔ اسی بناء پر وہ میاں عیسیٰ کے بیٹے سے بھی سیکھتے رہے۔ کلاسیکل میں اُن کو کمال حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ وہ صرف کلاسیکل کے نہ رہے اور انہوں نے فوک کو بھی ساتھ ساتھ رکھا اور سرائیکی فوک موسیقی میں بھی انہوں نے بہت نام کمایا۔ جس طرح شفاء اللہ روکھڑی اپنے بیٹوں کو موسیقی کی طرف لائے اور ذیشان روکھڑی کی صورت میں وسیب کو خوبصورت فنکار ملے اسی طرح اللہ دتہ لونے والا نے بھی اپنے بیٹوں کی تربیت جاری رکھی اور اُن کے بیٹے ندیم عباس لونے والا کا آج سرائیکی موسیقی میں بہت بڑا نام ہے اور اُن کا بہت ہی مشہور سرائیکی گیت "کیوں سوہنے دا گلہ کراں، میں تاں لکھ واری بسم اللہ کراں " پوری دنیا میں گونج رہا ہے۔
اللہ دتہ لونے والا کا نہ صرف وسیب بلکہ پوری دنیا میں ایک نام تھا۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر وہ یکساں مقبول تھے اور اُن کے بہت سے البم آئے۔ عارفانہ کلام اور کافی گانے میں بھی اُن کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ جب سرائیکی میں ڈورا گیت اور کافی گاتے تو سننے والوں کو اپنی آواز کے سحرکا اسیر کر لیتے۔ وہ جھنگ لہجے کی میٹھی سرائیکی زبان کے سنگر تھے اور اسی وسیب سے آج اللہ دتہ لونے والا چلے گئے اس سے پہلے منصور ملنگی اور طالب درد نے داغ مفارقت دیا۔ یہ تینوں فنکار اتنے بڑے فنکار تھے کہ ان جیسا صدیوں بعد پیدا ہو گا۔ تینوں فنکاروں کا اپنا اپنا انداز، اپنا اپنا رنگ اور اپنا اپنا آہنگ تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کی وفات سے بہت بڑا خلاء پیدا ہوا ہے جو مدتوں بعد بھی پُر نہ ہو سکے گا۔ اللہ دتہ لونے والا کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی ملا اور انہوں نے پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔
آج ہم اللہ دتہ لونے والا کو یاد کر رہے ہیں اُن پر تو اللہ کی رحمت تھی خداوند کریم نے ان کو تمام نوازشات سے نوازا تھا مگر ہمارے بہت سے فنکار ایسے ہیں جو آج بھی طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں کیوں نہ آج ہم تھوڑا سا تذکرہ اُن کے مسائل اور محرومیوں کا بھی کریں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کورونا کی وجہ سے لاکھوں فنکار بیروزگار ہو چکے ہیں، ساؤنڈ ایکٹ کی وجہ سے پہلے ہی وہ بہت پریشان تھے، مگر کورونا لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ فنکار ایک طرح سے دیہاڑی دار ہوتے ہیں اور کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ چار ماہ سے چولہے ٹھنڈے ہیں، نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے فن کے علاوہ ہمیں کوئی دوسرا کام بھی نہیں آتا۔ مزدوری یا ملازمت کرنے کو بھی تیار ہیں مگر کام بند ہونے کی وجہ سے مزدوری بھی نہیں مل رہی۔ ذاتی تعلق کی بنا پر صاحب ثروت افراد سے ادھار لیتے رہے، نوبت بھیک تک آچکی ہے مگر کون کسی کو ہر آئے روز دیتا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے تو اسے اپنے اعلان کا بھرم رکھنا چاہئے اور غریب فنکاروں کی مدد کیلئے لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔
ثقافت کو پروموٹ کرنے کیلئے ثقافتی پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کلچر سے دلچسپی ہے اور سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور بھی آرٹ، کلچر اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فنون لطیفہ، دستکاریاں، ڈرامہ فلمز، کہاوتیں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات، مذہبی، سماجی رسومات، لوک کہانیاں، لوک قصے، شعری و نثری و رومانوی قصے، بہادری کی داستانیں، موسموں کے گیت، فصلوں کے گیت، ثقافتی میلے، تہوار، بزرگوں کے عرس، بچوں کے گیت، کھیل، بچوں بچیوں کے کھیل، نوجوانوں بزرگوں کے مشاغل، پیدائش و موت کی رسمیں عقائد و عبادات لوک تماشے، لوک تھیٹر، زبان، بولیاں، کہاوتیں، ضرب الامثال، لباس، کھانے، عقائد، رہن سہن یہ سب کچھ ثقافت کا حصہ ہیں۔
یہ بھی عرض کر دوں کہ جاہلانہ رسومات اور کلچر میں فرق ہے۔ آخر میں اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک افسوسناک خبر کا ذکر کروں گا کہ سندھ کے علاقے داد لغاری گھوٹکی میں ایک دوشیزہ کو کاروکاری کے جرم میں زندہ درگور کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ایس ایس پی گھوٹکی نے واقعہ کا نوٹس لیکر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی منگن ہار کو زندہ درگور کرنے کا فتویٰ ایک مقامی مولوی نے دیا۔ یہ واقعہ دور جاہلیت کی ایک مثال ہے۔ یہ کلچر نہیں ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کلچر فطرت اور خوبصورتی کا نام ہے، کوئی بھی غلط عمل کلچر کی بدنامی کا باعث تو ہو سکتا ہے، اسے ثقافتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زمینی سرحدیں اپنی جگہ لیکن ثقافت کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ صرف ثقافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔