ڈی آئی خان میں ایک عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا سلسلہ شروع ہے، جس پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ گزشتہ شب ڈیرہ اسماعیل خان تھانہ کینٹ کی حدود میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے نوجوان صحافی قیس جاوید مسیح ہلاک ہو گئے۔ بلوچ چوک مدینہ کالونی میں ہونے والے اس واقعے سے ڈیرہ اسماعیل خان میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور صحافی برادری میں سخت غم و غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کو اس واقعے کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ قیس مسیح دس سال جیو نیوز کے کیمرہ مین رہے، اب وہ اپنے ویب چینل عہد نامہ کیلئے کام کرتے تھے۔ قیس مسیح صاحب بصیرت نوجوان تھے، صحافت سے ان کو عشق تھا، نہایت ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ صحافت کے ساتھ تحقیق بھی ان کا موضوع تھا۔ سرائیکی تاریخ کے نام سے انہوں نے ایک کتاب لکھی جو کہ ہمارے ادارے جھوک سے 2010ء میں شائع ہوئی۔
یکم ستمبر 1979ء کو موہن مسیح کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہونے والے قیس مسیح کی سوچ، فکر اور نظریات کو جاننے کیلئے ان کی کتاب کا دیباچہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ لکھتے ہیں " حملہ ااوروں نے ہمارے سرائیکی خطے کو اتنا افسردہ اور زخمی کر دیا ہے کہ ہر مذہب والا اس سے ہمدردی اور محبت کو نیکی سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی مجھ میں کچھ یوں سرایت کر گئی ہے کہ اگر مذاہب کے بعد کسی چیز پر طیش دلایا جا سکتا ہے تو وہ سرائیکی زبان کے متعلق کوئی بات کر کے ہے۔ میرے نزدیک سرائیکی صرف ایک زبان، قوم یا علاقہ نہیں بلکہ وہ میری ذات کا ایک حصہ ہے، جسے خود سے جدا نہیں کر سکتا۔ سرائیکی جغرافیہ کا آغاز و اختتام کہیں سے بھی ہو یہ میرے وطن میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔"
وہ مزید لکھتے ہیں کہ " پاکستان میں اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانیوالی زبان سرائیکی ہے لیکن اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی اور پھر میں نے یہ ذمہ داری لی کہ سرائیکی مسیحیوں اور سرائیکیوں کیلئے کچھ لکھوں، میں نے پراجیکٹ کی صورت میں کام کا آغاز کیا اور اس مقصد کیلئے ملتان، بہاولپور اور وسیب کے کچھ دوسرے شہروں اور علمی اداروں کے پاس جاتا ہوا بہاولپور میں جمشید کلانچوی صاحب نے از حد تعاون فرمایا، پھر سئیں ظہور دھریجہ سے ملاقات کے بعد میرے اندر کا سرائیکی جاگ اٹھا اور میں نے جھوک پبلشرز کے ساتھ مل کر اپنے پراجیکٹ کو کتاب کی شکل دی۔"
وہ لکھتے ہیں کہ " خدا کا شکر کہ میں مذہبی انتہا پسند نہیں ہوں کہ میری پرورش سرائیکی وسیب میں ہوئی اور یہاں کی مٹی صرف اپنے اندر جذب کرنا جانتی ہے اور دریا کنارے آباد ہونے کی وجہ سے یہ کسی پر دھول نہیں اچھالتی۔ گو کہ پنجابی میری مادری زبان ہے لیکن سرائیکی ہی کو میں مادری زبان کے طور پر لیتا ہوں اور میں ہمیشہ سرائیکی کو مادری زبان کہتا ہوں۔ کیونکہ زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے، میں کبھی سوچ بھی نہ سکتاتھا کہ میں صاحب کتاب بنوں گا۔ وسیب کی محبت نے مجھے صاحب کتاب بنا دیا اور دیروی بھی کہ اس سے پہلے میں اپنے نام کے ساتھ دیروی نہیں لکھتا تھا۔ اب میں ہمیشہ اپنے آپ کو دیروی لکھوں گا۔"
قیس مسیح اس کتاب کی فہرست سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب کے موضوعات اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ وسیب کی تاریخ قبل از مسیح، وسیب کی ثقافت، وسیب کی زبان، سرائیکی زبان کی وجہ تسمیہ، سرائیکی زبان کا مختلف زبانوں سے اشتراک، مزید برآں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ کتاب میں لندن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل، معروف ماہر لسانیات اسلم رسولپوری اور ظامی بہاولپوری کے نقشہ جات اہمیت کے حامل ہیں۔ قیس مسیح نے تاریخی کتابوں کے حوالے سے لکھا کہ وسیب ہی وہ خطہ ہے جہاں انسان نے پہلی مرتبہ اپنے دو پاؤں پر چلنا سیکھا، وسیب ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تہذیب اور معاشرت نے جنم لیا۔ وسیب وہ خطہ ہے جہاں پہلی مہذب سلطنت قائم ہوئی، جہاں انسان نے لکھنے کا فن اور ہنر سیکھا، جہاں زراعت و کاشتکاری کی ابتداء ہوئی، جہاں ناپ تول کے پیمانے وجود میں آئے۔ جہاں خشت سازی کی ابتداء ہوئی اور لوگوں نے گھر بنانا اور گھروں یں رہنا سیکھا، جہاں علم کے مراکز کھلے، تعلیمی ادارے قائم ہوئی اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ ملتان کا شمار کائنات کے قدیم ترین زندہ شہروں میں ہوتا ہے اور قدیم تہذیب کے آثار ڈیرہ اسماعیل خان میں کے مختلف علاقوں میں قدم قدم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب تھوڑا تذکرہ ڈیرہ کے پس منظر کے حوالے سے کروں گا کہ اس خطے میں موجود آثار قدیمہ کی تاریخ ہزاروں برس ہے تاہم ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی تاریخ کم و بیش پانچ سو سال پرانی ہے۔ سردار سہراب خان جو ایران سے نقل مکانی کر کے آئے تھے نے اسے آباد کیا تھا اور اپنے مرحوم بیٹے کے نام سے اسے " ڈیرہ اسماعیل خان " کا نام دیا۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ خطے کا خوبصورت شہر ہے۔ اسے " ڈیرہ پھلاں دا سہرہ" بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مطابق 1823ء میں دریائے سندھ نے رخ بدلا تو پورا شہر دریا بُرد ہو گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے " بھلے مانس" نواب احمد یار خان نے نئے شہر کی بنیاد رکھی اور بلا رنگ نسل و مذہب سب انسانوں کو دریا برد ہونے والی زمینوں کے بدلے زمینیں اور گھر بنا کر دیئے۔ ڈیرہ ایک بار پھر آباد ہو گیا۔ شہر کو آئندہ سیلابوں سے بچانے کیلئے ایک طویل حفاظتی بند جسے سرائیکی میں بچا بند کہتے ہیں 1931ء میں انگریز کمپنی گیمن نے بنایا۔ حفاظتی بند کا پتھر پہنچانے کیلئے بنوں سے براستہ لکی ڈیرہ اسماعیل خان تک ریلوے لائن بچھائی گئی، جو 1990ء کی دہائی میں ختم کر دی گئی۔ سی پیک منصوبے میں ڈی آئی خان ریلوے منصوبہ شامل تھا، جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔