کراچی کے جلسے کی خاص بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ تقریر نہ کرانے کی وجہ ڈھکی چھپی نہیں، میاں نواز شریف نے گوجرانوالہ کے جلسے میں فوج کے خلاف جو اندازِ فکر اختیار کیا، دوسرے دن بلاول بھٹو زرداری نے تردید کر دی اور کہا کہ اداروں کے خلاف بات کرنا مناسب نہیں، ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ نواز شریف کو تقریر کا موقع نہیں ملے گا۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بہت کوشش کی اور آصف زرداری سے تیمارداری کے بہانے ملاقات کر کے جتن کرتے رہے کہ نواز شریف کو تقریر کرنے کا موقع دیا جائے مگر زرداری نہ مانے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مولانا فضل الرحمن کم سیاستدان نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدانوں کی سیاست ختم ہوتی ہے وہاں سے آصف زرداری کی سیاست کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی عمران خان سے سیاسی مخالفت سے بڑھ کر ذاتی مخالفت ہے، عمران خان نے دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن کو بھی سیدھی سیدھی سناتے رہے اور مولانا ڈیزل تک کہتے رہے۔ اب بھی وزیراعظم عمران خان اتنے ناراض نظر آتے ہیں کہ ان کو معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ اب ان کا تعلق اپوزیشن سے ہے یا بر سر اقتدار جماعت سے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کو اکٹھا کرنے میں دوسروں سے زیادہ خود عمران خان کا ہاتھ ہے۔ اگر ملک و قوم کی بہتری کیلئے قانون سازی یا آئین سازی کرنی ہے تو عمران خان کو کنٹینر سے نیچے آنا ہوگا۔
کیپٹن صفدر نے مزار قائد پر نعرہ بازی کر کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ قانون موجود ہے کہ مزار قائد پر سیاسی نعرے بازی کی ممانعت ہے، مزارِ قائد پر سیاسی نعرے بازی کا قانون ہے تو اس میں ترمیم ہونی چاہئے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیتے تھے اور ان کے تمام اقوال جمہوری حوالے سے تاریخ کا حصہ ہیں۔ کراچی کے جلسے کے ردِ عمل میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود کا یہ بیان کہ " نظام کو کچھ ہوا تو اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا " در اصل وہ دھمکی ہے جو مارشل لاء کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ حالانکہ مارشل لاء کی سب کو مذمت کرنی چاہئے آئین کی معطلی غداری کے زمرے میں آتی ہے۔
مریم نواز نے کراچی کے جلسے میں اپنے والد کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور انکے شوہر نامدار کیپٹن صفدر نے مزار قائد پر سیاسی نعرے لگوائے جن میں مریم نواز کیلئے مادر جمہوریت کا نعرہ بھی شامل تھا۔ جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے، جمہور کا مطلب لوگ اور عوام ہیں۔ جن میں کیپٹن صفدر کا بھی شمار ہوتے ہیں، اسی بناء پر مریم نواز کیلئے ان کے منہ سے مادر جمہوریت کا نعرہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ن لیگ اور انکے اکابرین جتنے جمہوری ہیں اس کا سب کو علم ہے۔ جنرل جیلانی سے لیکر جنرل ضیا الحق تک ایک داستان ہے، جنرل مشرف کو میرٹ سے ہٹ کر چیف آف آرمی سٹاف بنانے والے بھی میاں نواز شریف ہیں۔ میاں صاحب گوجرانوالہ کے جلسے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاویدباجوہ کے خلاف دھواں دار تقریر فرما رہے تھے، مگر سوال یہ ہے کہ جب اسمبلی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پیش ہوا تو ن لیگ نے آگے بڑھ کر اس کی حمایت کیوں کی؟ عجب بات ہے کہ جب این آر او لینا ہو اور جیل سے نکل کر دوسرے ملکوں کو جانا ہو تو سب کچھ جائز ہو جاتا ہے، اور بعد میں حرام ہو جاتا ہے۔ یہ دوہرے معیار کیوں ہیں؟ ہم عمران خان کے طرفدار نہیں مگر عمران خان کو دوہرے معیار کا طعنہ دینے والے ن لیگی اپنی اداؤں پر بھی غور کریں۔
گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد مخدوم جاوید ہاشمی ملتان پہنچ کر اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی رخصتی قریب ہے، مڈٹرم الیکشن دیوار پر لکھے جا چکے ہیں۔ وسیب کے سیاستدان بھی عجب ہیں، مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ انکی ساری زندگی حکومتیں بنوانیں اور حکومتیں تڑوانے میں بسر ہو گئی، مخدوم جاوید ہاشمی کی بھی بد قسمتی یہ ہے کہ ن لیگ پر جب کڑا وقت آتا ہے تو مخدوم جاوید ہاشمی میاں نواز شریف کی وفاداری میں تمام حدود و قیود پار کر جاتے ہیں اور جب ن لیگ بر سر اقتدار آتی ہے تو مخدوم جاوید ہاشمی کو دور پھینک دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وسیب کی طرف سے مخدوم جاوید ہاشمی پر سختاعتراض ہو رہا ہے کہ محمود اچکزئی نے کراچی کے جلسے میں آٹھ مرتبہ سرائیکی کا نام لیا جبکہ مخدوم جاوید ہاشمی کو ایک مرتبہ بھی نام لینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ 2013ء کے الیکشن میں ن لیگ نے اپنے منشور میں لکھا کہ ہم جنوبی پنجاب بہاولپور صوبہ بنائیں گے، ن لیگ کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی، سینٹ سے صوبے کا بل پہلے سے پاس ہو چکا تھا مگر ن لیگ نے پورے پانچ سال کے دوران کچھ نہ کیا اور مخدوم جاوید ہاشمی بھی خاموش رہے۔ جب انہو ںنے ن لیگ چھوڑی تو اس بناء پر نہیں کہ وسیب کو حقوق نہیں دیئے جا رہے۔ اب ان کا جیل جانے کا موڈ ہے تو وسیب یا انسانی حقوق کیلئے نہیں بلکہ سارا مسئلہ کرسی اور اقتدار کا ہے۔
" کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا " ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب اپوزیشن کا اتحاد ہوا تو یہ شعر اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتا تھا، اُس اتحاد کا خمیازہ اب تک بھگتا جا رہا ہے، سرائیکی زبان کی ایک کہاوت ہے " باندر آپت اچ رل ونجن تاں سمورا باغ کھا ویندن، جے لڑ پوون تاں سمورا اجاڑ ڈٖیندن"، اس کا مطلب یہ ہے کہ بندر آپس میں لڑ پڑیں تو پورا باغ کھا جاتے ہیں اور اگر لڑ پڑیں تو پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں۔ اپوزیشن کے غیر فطری اتحاد پر تبصرہ کرنے کی بجائے ہم دعاگو ہیں کہ یہ اتحاد ملک و قوم کو کسی نئے عذاب میں مبتلا نہ کر دے۔