Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Kafan Mein Lipte Hue Phool

    Kafan Mein Lipte Hue Phool

    سانحہ پشاور کی یاد پورے ملک میں منائی گئی۔ سرائیکی جماعتوں کی طرف سے بھی جھوک سرائیکی میں شمعیں روشن کی گئیں۔ سانحہ پشاور پہلا واقعہ ہے جس پر لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی، قلم اٹھاتا ہوں پھر رکھ دیتا ہوں۔ کس کس بات کو قلمبند کروں، چشم تصورسے سانحے کے مناظر دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتاہے، ظلم تو دیکھو دہشت گرد بچوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور ان کے چہروں پر گولیاں مار رہے ہیں۔ ایک استانی گولیوں کی برسات میں وہاں بچوں کو گولیوں سے بچانے کیلئے دوسرے کمروں میں بھیج رہی ہے۔ اس " جرم " میں دہشت گرد فاسفورس بم سے اس ٹیچر کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ اس پر آدمی لکھے تو کیا لکھے، کس میں ہمت ہو لکھنے کی؟ جب شہید ہونیوالا بچے کا تڑپتا لاشہ کہہ رہا ہو، ماں ناراض نہ ہونا بستے پر خون کے داغ لگ گئے، دھو دینا، بتایئے اس پر آدمی کیا لکھئے؟ سب کہہ رہے ہیں کہ مرحومین کی مغفرت کیلئے دعا کریں، یار! معصوم بچوں کا کیا گناہ ہے کہ ان کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے، دعا کرنی ہے تو ظالموں کیلئے کریں کہ خدا ان کو ہدایت دے اوروہ انسان بن جائیں۔

    رمق انسانیت کی تو ذرا سی بھی نہیں ان میں یہ ظالم کتنی سفاکی سے بچے مار دیتے ہیں سانحہ پشاور پر کراچی سے خیبر تک ہر آنکھ اشکبار ہوئی، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح وسیب میں بھی اس سانحے کی شدت کو محسوس کیا گیا۔ سانحے کے دن میں ملتان تھا، پورے شہر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایک دن میں سرائیکی جماعتوں سمیت ایک سو کے لگ بھگ مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ دوسرا واقعہ تھا، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا۔ دنیا کا کوئی ایسا لیڈر یا کوئی ایساملک نہیں جس نے اس واقعے کی مذمت نہ کی ہو۔ ترکی، امریکا، چین، روس، فرانس اور برطانیہ سمیت پوری دنیا نے پھولوں کے گولیوں سے چھلنی ہو جانے پر دکھ کا اظہار کیا۔ سرائیکی سمیت پاکستان کی تمام زبانوں کے شعراء کرام نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو کا شعر دیکھئے:۔

    کفن پر بکھرے ہوئے پھول روز دیکھے تھے

    کفن میں لپٹے ہوئے پھول آج دیکھے ہیں

    سانحہ پشاور پر دنیا میں کون سا ایسا کلیجہ ہے جو منہ کو نہ آیا ہو، یہ ٹھیک ہے کہ ہندوستان پاکستان کا حریف ہے، لیکن اس صدمے نے ہندوستان کو بھی رُلا دیا ہے۔ یوسف خان المعروف دلیپ کمار اور انکے بھتیجے شاہ رخ خان کا ا پنی جنم بھومی پشاورکے سانحے پر رو رو کر برا حال ہوا۔ سوشل میڈیا پر وسیب سے ہندوستان چلے جانے والے دیرہ وال بھون، ڈیرہ غازی خان، ملتان، میانوالی ایسوسی ایشن، ڈیرہ اسماعیل خان نگر دہلی کے دیوی دیال کھانیجو، ملک راجکماراور بیرسٹر جگدیش بترا نے پھولوں جیسے بچوں کی شہادت پر پرنم آنکھوں کے ساتھ شمعیں روشن کئے ہوئے ہیں اور میڈیا کی معرفت یہ شعر بھی وہاں پہنچا:

    پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ شوکت

    کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

    دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے پہلے نمبر پر دہشت گردی کے اسباب کوختم کرنا ضروری ہے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، وطن کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔ بڑی طاقتوں کی جنگ کیلئے پاک سر زمین کو میدان کارزار نہ بنایا جائے۔ دوسرے نمبر پر ان برادر اسلامی ملکوں کی طرف سے مسالک اور مذہبی فرقوں کی امداد اور حوصلہ افزائی بند کرائی جائی۔ یاد رہے کہ جہاں فرقوں کو تقویت ملے گی، وہاں مذہب کمزور ہو گا اور قومی یکجہتی کا پارہ پارہ ہو جائے گی۔ پاکستان میں جتنے بھی جہادی گروہ سرگرم ہیں یہ در اصل مسلکی گروہ ہیں اور ان میں سے جو گروہ بھی جہاں طاقتور ہو گا، دوسرے مسلک کے لوگوں کے گلے کاٹ دے گا۔ اس لئے ایران، سعودی عرب، عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے مسالک کے نام پر آنے والے سرمائے کو روکنا چاہئے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اتنا نقصان ہمیں را، موساد اور سی آئی اے نہیں دے سکی جتنا کہ برادر اسلامی ملکوں کے سرمائے سے ہوا۔ داعش یعنی " دولت اسلامیہ عراق و شام " بھی مذہب کے نام پر مسلک کیلئے کام کر رہی ہے اور اس کی تباہی کا چھوٹا سا ٹریلر سانحہ پشاور ہے۔ قوموں کی عالمی برادری میں پاکستان کو باوقار مقام دلانے کیلئے ضروری ہے کہ ہر طرح کی انتہا پسندی، مذہبی، ضعیف الاعتقادی اور گستاخانہ رویوں کا خاتمہ کر کے انسان اور انسانیت کو مضبوط بنانا ہو گا۔

    تیسرے نمبر پہ یہ کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت اور ہماری ایجنسیوں کو ہر طرح کے عسکری ونگز کی سرپرستی کو ختم کرنا ہو نگے اور پاکستان کو ایک ایسا فلاحی ملک بنانا ہو گا جہاں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ ہو۔ ، دوسرا یہ کہ ایسے عمل سے پاکستان میں مذہبی رنگا رنگی ختم ہوگی تو پھر مسلکی رنگ گہرا ہو گا اور مسلم مسلم کو کاٹ کھائے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسالک کو ختم کرنا آسان نہیں لیکن ان کے درمیان شدت ختم کی جا سکتی ہے، آج سے نصف صدی والا ماحول واپس لایا جا سکتا ہے بشرطیکہ برادر اسلامی ممالک اور خود پاکستان مسالک کی بنیاد پر عسکری ونگز کی حوصلہ افزائی بند کرے۔

    چوتھے نمبر پر یہ کہ غیر مسلم اقلیتوں کے بارے امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے، یہ اسلئے ضروری ہے کہ کل کلاں کو غیر مسلم ملک مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین بنانے کا جواز پیدا نہ کر لے، سٹیٹ کو ماں کا درجہ ہونا چاہئے جو مسلم، غیر مسلم سب کی ماں ہو۔ مذہب کائنات کی اعلیٰ ترین چیز کا نام ہے جو انسان کو تہذیب سکھاتا ہے اور انسان کو احترام آدمیت کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتا ہے۔ پوری دنیا میں سٹیٹ میں رہنے والے انسانوں کا مذہب ہونا چاہئے۔