سندھی ثقافت کا دن جوش و خروش سے منایاگیا۔ سندھ کے ہر گوٹھ، ہر قصبے اور ہر شہر کے ساتھ ساتھ اندرون و بیرون ملک جہاں جہاں سندھی آباد ہیں، وہ یہ دن جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ سندھی کلچرل ڈے کی تقریب گورنر ہاؤس کراچی میں منعقد ہوئی، گورنر عمران اسماعیل نے سندھی ثقافت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ اور سابق صدر آصف زرداری نے سندھی کلچرل ڈے شایان شان طریقے سے منانے کیلئے خود ہدایات جاری کیں اور سندھی حکومت نے فنڈز جاری کئے۔ سندھ کابینہ کے وزراء نے پروگراموں میں شرکت کی، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے بھی سندھ کلچر ڈے پر مبارکباد کا پیغام بھیجے کے ساتھ ساتھ اپنے آفس میں سندھی اجرک پہن کر سندھ کے معروف فوک سنگر علن فقیرکے پوٹریٹ کو آویزاں کیا۔ کینیڈا کے وزیراعظم جٹسن ٹروڈ نے کینیڈا میں مقیم سندھیوں کو مبارکباد دی۔ امریکی سفارت خانے میں بھی سندھی کلچرل ڈے منایا گیا اور جرمن قونصلیٹ نے مبارکباد دی۔ سندھی میں قوم پرست جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ( فنکشنل )، تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں نے بھی تقریبات میں حصہ لیا۔ جو کہ خوش آئند بات ہے۔
بلاشبہ عدم برداشت اور انتہا پسندی کے پر آشوب دور میں انسان دوستی پر مبنی ثقافتی اقدار کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ دسمبرکے پہلے اتوار کو سندھی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے، سندھی کلچرل ڈے کس طرح وجود میں آیا؟ اسے جاننے کی ضرورت ہے، واقعہ اس طرح ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اقوام متحدہ سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر گئے تو ایک ٹی وی اینکر نے ان کے اس عمل کو غیر مہذب قرار دیا۔ جس پر سندھ میں احتجاج ہوا اور سندھیوں نے سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک کا دن منانے کا فیصلہ کیا اور وہی دن سندھ کا کلچرل ڈے قرار پایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں موجود مندوبین نے آصف زرداری کے لباس کی تعریف کی تھی جبکہ ٹی وی اینکر نے تعصب کی بنیاد پر زرداری کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور حقیقت یہی ہے کہ کلچر بہت بڑی طاقت ہے، پاکستان مختلف زبانوں اور مختلف ثقافتوں کا ایسا گلدستہ ہے جس کے رنگ و بو سے ہم دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ثقافت، انسان دوستی اور محبت کا دوسرا نام ہے، ایک ثقافت دوسری ثقافتوں کا احترام کرتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سندھ حکومت سندھی زبان اور سندھی ثقافت کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر اقدامات کرتی ہے۔ 2 مارچ بلوچی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح 6 مارچ کو سرائیکی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے ہے۔ میں نے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی توجہ خط کے ذریعے مبذول کرائی کہ جس طرح سندھ حکومت سندھی کلچرل ڈے مناتی ہے، اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی سرائیکی کلچرل ڈے منانا چاہئے اور پنجابی و پوٹھوہاری کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ صوبے کے لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں تو ان کے احساسات و جذبات کا بھی احترام ہونا چاہئے۔
کسی بھی خطے کی ثقافت میں زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ثقافت کے اجزاء میں سے زبان بہت بڑا جز ہے۔ سائنس کی دنیا میں زبان کو انسان اور انسان کو زبان کا نام دیا جاتا ہے۔ زبان کی ترقی کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ سندھ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ سندھ کے آثار اور زبان و ادب کی ترقی کیلئے اقدامات کررہی ہے اور زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے بہت سے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھی لازمی ہے۔ دیگر صوبوں کو سندھ کی تقلید کرنی چاہئے۔ زبان کی ترقی میں شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ سندھی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ(1689-1752ء ) کی شاعری پر مشتمل " شاہ جو رسالو " آج بھی نہایت شوق اور محبت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ملتان کی بلیو ٹائلز پر مشتمل بھٹ شاہ میں آپ کا مقبرہ جو کہ 1754ء میں غلام شاہ کلہوڑا نے تعمیر کرایا، آج بھی پورے سندھ کا قومی نشان ہے۔
آرٹ، کلچرل اور لینگویج یہ تینوں عناصر نہ ہوں تو معاشرہ روبوٹ کی شکل اختیار کر جائے۔ کلچر انسان کو اپنی دھرتی ماں اور اپنی ماں بولی سے محبت سکھاتا ہے۔ یہی محبت مادر وطن کے دفاع کا باث بنتی ہے۔ انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ حملہ آوری کا مقابلہ تہذیب و ثقافت کے ذریعے ممکن ہے۔ سرائیکی تہذیب کی علامت نیلے رنگ کی اجرک ہم نے متعارف کرائی تو کہا گیا کہ یہ سندھ سے تفریق پیدا کرے گی تو میں نے کہا کہ سرائیکی اجرک سندھی اجرک کے مقابل نہیں۔ سندھ کی اپنی پہچان ہے اور وسیب کی اپنی۔ تاریخی حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ملتان کاشی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ سندھ جائیں یا بلوچستان۔ تاریخی عمارتوں پر آپ کو ملتانی کاشی کے نقش نظر آئیں گے۔ بات صرف پاکستان یا ہندوستان کی نہیں۔ ایران، عراق، شام، مشرق وسطیٰ ہو یا بلخ بخارا سے کاشغر آپ کو ملتانی کاشی گری کے رنگ فیروزی اور نیلا نظر آئیں گے۔ سرائیکی اجرک کے رنگ بھی یہی ہی ہیں۔ ان رنگوں اور ان رنگوں کے پھولوں کی تاریخ پانچ ہزار سال ہے۔ ان رنگوں میں سرائیکی اجرک متعارف کرا کر ہم نے اپنی پانچ ہزار سال کی تاریخ کو زندہ کیا ہے۔ سرائیکی اجرک کے رنگوں کو ہر جگہ پسند کیا گیا۔ سرائیکی اجرک کے رنگ دیکھ کر آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور یہی رنگ کائنات کی وسعت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ زمین آسمان کا یہی رنگ نیلا ہے۔۔ خوشی کی بات ہے کہ وسیب کے لوگ ان خوبصورت رنگوں کے ذریعے اپنی قدیم ثقافت اور قدیم اجرک کو ایک بار پھر سے زندہ کر رہے ہیں۔ رفعت عباس نے سچ کہا کہ:
اساں تاں نیلیاں سلھاں اُتے پھل بنْاونْ آلے
ہُنْ جے نوبت وحٖ پئی اے تاں ویس وٹیندے پئے ہیں