پی ڈی ایم کی طرف سے لاہور میں جلسہ ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ پی ڈی ایم اسے کامیاب جلسہ قرار دے رہی ہے جبکہ حکومتی وزراء اسے ناکام جلسہ کہہ رہے ہیں۔ وزراء نے یہ بھی کہا کہ لاہور کے عوام نے اپوزیشن کو اوقات یاد دلا دی ہے۔ دوسری طرف لاہور کے جلسے میں محمود اچکزئی اور اختر مینگل کی طرف سے سخت تقریریں بھی سننے کو ملیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ہر جلسے میں نوازشریف کا بیانیہ دہرایا جاتا ہے۔ بہر حال پی ڈی ایم جو بھی دعویٰ کرے یہ حقیقت ہے کہ ملتان جیسا تاثر قائم نہیں ہو سکا جس کی بناء پر وزراء کو بات کرنے کا موقع مل گیا۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں قراردادیں بھی پاس ہوئیں جس میں کہا گیا کہ آٹھارویں ترمیم وفاق کی علامت ہے۔ صوبائی خود مختاری کو نہ چھیڑا جائے۔ لا پتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے اور گوادر شہر کے گرد باڑ ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں لانگ مارچ کا بھی ذکر ہوا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں لانگ مارچ ہو گا۔ اس سے پہلے حکومت قانون سازی کی طرف جا رہی ہے اس کے مطابق زرداری کے مقدمے کا اختیار وزارت داخلہ کو دیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے زرداری کے کسی مقدمے کی منظوری کابینہ سے ضروری تھی۔
وفاقی کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا، انکی جگہ ریلوے کی وزارت اعظم سواتی کو دی گئی ہے جبکہ مشیر خانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی وزیر خزانہ بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیرداخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کو وزیر برائے انسداد منشیات مقرر کیا گیا ہے۔ شیخ رشید احمد وزارتیں حاصل کرنے والے سینئر سیاستدان بن چکے ہیں، سیاسی زندگی میں یہ انکی پندھرویں وزارت ہے، شیخ رشید کو پہلی مرتبہ1991ء میں نوازشریف کی کابینہ میں وزیر صنعت و ثقافت بنے، یہ ٹھیک ہے کہ انکے دور میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا اور کچھ فلم سٹار انکے ہاتھوں سے نوازے گئے مگر پسماندہ علاقوں کیلئے نہ صنعتی ترقی ہوئی اور نہ ثقافتی، وہ متعدد بار وزیر اطلاعات رہے مگر انکی نظرِکرم بڑے شہروں تک مرکوز رہی البتہ انہوں نے ایک کام کیا کہ بہاولپور کیلئے پی آئی ڈی آفس کے قیام کا اعلان کیا مگر افسوس کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا جس کے خلاف بہاولپور کے صحافیوں نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور فیصلہ بہاولپور کے حق میں ہوا مگر تادم تحریر فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
یہ ٹھیک ہے کہ شیخ رشید احمد کو خواب وزارت داخلہ تھی جو انکو مل گئی مگر ریلوے میں انکی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی انکے دور میں سب سے زیادہ ریلوے کے حادثات ہوئے اب یہ وزارت اعظم سواتی کو دی گئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ ریلوے کو بہتر بنانے میں کیا اقدامات کرتے ہیں البتہ یہ تاثر عام کو چکا ہے کہ دوسری اہم وزارتوں کی طرح یہ وزارت بھی پشتون علاقے سے تعلق رکھنے ایک شخص کو دی ہے، زرداری دور میں یہی وزارت پشتون علاقے سے تعلق رکھنے والے غلام احمد بلور کی دی تھی جن کے دور میں دیلوے کی وزارت تباہی کے دہانے پر پہنچی۔ کوئی دوسرا شخص شاید بات نہ کرے کہ وزیر مشیر حاکموں کی خوشنودی کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے اور کبھی وہ عوامی مسائل اور زمینی حقائق کا تذکرہ اس بناء پر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں وزارت یا عہدہ نہ چلا جائے کیونکہ ہمارے اس طرح کے مسائل نہیں اور نہ ہی ہم کسی منصب یا مراعات کے امیدوار ہیں، اس لئے بجا طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ سرائیکی وسیب میں تحریک انصاف کی پوزیشن روبروز خراب ہو رہی یے، وسیب کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ووٹ ہم نے دئیے، 100دن کا وعدہ ہوا نہ صرف یہ کہ صوبہ نہ بنا بلکہ وسیب کا احساسِ محرومی بھی ختم نہ ہوا۔
مرکز اور صوبے میں عمران خان کی حکومت وسیب کے ووٹوں سے قائم ہوئی۔ کہنے کو ایک بڑی وزارت مخدوم شاہ محمود قریشی کو دی گئی جوکہ بیرون ملک دوروں پر محو پرواز رہتے ہیں وہ وسیب کی زمین زادوں کے مسائل حل کرنے کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ وسیب انکی ترجیحات میں شامل ہے، سرائیکی کی ایک کہاوت ہی"اتلا پَتر جوار دا، نہ کم دا نہ کار دا" اسی بناء کی ایک وزارت خسروبختیار کے پاس ہے جو کرپشن کے ڈھال کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، جب خسرو بختیار نے ووٹ لئے تو اس وقت ہر جلسے میں صوبے کی بات کرتے تھے، اب حامد میر سے انٹرویو کے دوران خسروبختیار نے کہا کہ سرائیکی صوبہ لسانیت ہے، میں کبھی نہیں بننے دوں گا، وسیب کے یہ بڑے جاگیردار جوکہ دولت میں قارون کی ہمسری کرتے ہیں مگر سوچ کے اعتبار انکا شمار دنیا کے پست ترین لوگوں میں ہوتا ہے، وسیب کے لوگوں کا خیال ہے کہ مرکز میں صرف پشتونوں کو نوازا جا رہا ہے اور وسیب میں اگر وزارت اعلیٰ بھی دی گئی ہے کہ وہ اس بناء پر نمائشی کہ عثمان بزدار کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کو صوبے کے ساتھ اختیار اور شناخت بھی دی جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ناموسِ رسالت کی حساسیت کو اجاگر کرنا دین کی اصل خدمت ہے، وزیراعظم کے اس بیان کا تمام مسلمان خیر مقدم کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہے، وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے مولانا فضل الرحمٰن پر فرقہ واریت کا الزام لگایا ہے مگر سوال یہ ہے کہ فرقہ پرست تو کابینہ میں بھی موجود ہیں، انکا یہ الزام کہ مولانا فضل الرحمٰن برطانوی ایجنسی ایم آئی 6سے رابطہ ہے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے چیئرمین پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ حکومت کے خلاف سازش میں ملوث ہیں اور ہمارا سوال ہے کہ انکا کوئی بزنس اور کاروبار نہیں انکو اربوں روپے کی فنڈنگ کہاں سے ہوئی؟ ان الزامات کا جواب یقینا مولانا فضل الرحمٰن دیں گے۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ گزشتہ روز لاہور میں ہونیوالے جلسے پر جہاں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے گو کہ حکومتی وزراء اسے ناکام جلسہ قرار دے رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جلسہ اتنا ناکام نہیں تھا جتنا کہ حکومتی وزراء دعویٰ کر رہے ہیں۔ جلسے میں لوگ اپنے طور پر بھی شامل ہوئے ان میں کچھ وہ نوجوان بھی شامل تھے جنہوں نے تبدیلی کی آس پر عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ نوجوانوں کے کچھ خواب تھے جو چکنا چور ہوئے۔ عمران خان تحریک انصاف کے اکابرین کو اب بھی وقت ہے معاملات سنبھال لینے چاہئیں اور تبدیلی کے خواب کو عملی شکل دینی چاہئے ورنہ تیسرے آپشن کے بعد چوتھا آپشن اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔