کمشنر بہاولپور جاوید اختر محمود نے کہا ہے کہ ملتان میں لوک ورثہ میلہ بہت جلد منعقد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے لوگ ثقافت کے فروغ کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ اچھی بات ہے کہ کمشنر بہاولپور لوک ورثہ کے نام سے میلہ کرانے جا رہے ہیں لیکن ایک سوال یہ ہے کہ لوک ورثہ کو محفوظ کرنے کیلئے کیا اقدامات ہوئے؟ کسی بھی خطے کے ورثہ کو محفوظ کرنے کیلئے میوزیم اور عجائب گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملتان میوزیم کا منصوبہ سالہاسال سے زیر التواء چلا آرہا ہے۔ سب سے پہلے ہم عجائب گھروں کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد طرح طرح کے مسائل کا سامنا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں چھ عجائب گھر آئے، جن میں سے چار یعنی کراچی، لاہور، پشاور اور ٹیکسلا مغربی پاکستان اور دو یعنی وریندر ریسرچ سوسائٹی میوزیم اور ڈھاکہ میوزیم مشرقی پاکستان کے حصے میں آئے۔ ان عجائب گھروں کو ترقی دینے کا مرحلہ در پیش تھا۔ قدیم ترین عجائب گھر کراچی کا ہے۔ یہ 1851ء میں ملکہ وکٹوریہ کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ 1870ء میں وکٹوریہ میوزیم کو بلدیہ کراچی کے زیر انتظام کر دیا گیا۔ بلدیہ نے 1928ء میں اسے ایک نو تعمیر عمارت میں منتقل کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اس عمارت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا دفتر کھولا گیا تو عجائب گھر کے لیے نئی جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 17 اپریل 1950ء کو گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے فرنٹیئر ہال میں "نیشنل میوزیم آف پاکستان" کا افتتاح کرکے قومی ورثے کو محفوظ بنانے کے عمل کو آگے بڑھایا۔
یہ درست ہے کہ قومی عجائب گھر میں چار گیلریاں ہیں، ایک گیلری زمانہ قبل تاریخ کے لیے مخصوص ہے، دوسری گندھارا کے لیے، تیسری ہندو دور کے لیے اور چوتھی اسلامی دور کے لیے۔ مخطوطات، تصاویر، خطاطی کے نمونے، سکے اور دوسرے نوادرات موجود ہیں۔ تحریک پاکستان سے متعلق تاریخی دستاویزات، تصاویر اور نوادر کا جتنا اچھا ذخیرہ اس میوزیم میں ہے شاید کسی اور میوزیم میں نہیں ہے۔ جب ہم وسیب کو دیکھتے ہیں تو قومی میوزیم میں سرائیکی وسیب کا کوئی علاقہ نظر نہیں آتا۔ تاہم سر سید، مسلم لیگ اور تحریک خلافت سے متعلق قابل ذکر دستاویزات موجود ہیں۔ لاہور میوزیم آثار قدیمہ، فنون لطیفہ، سکہ سازی، مجسمہ سازی، شاہی ملبوسات اور تاریخ ہندو پاک کے بعض اہم و نادر و عجائبات کے ذخیروں کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔ اس کا آغاز 1864ء میں ایک صنعتی نمائش سے ہوا تھا جو ٹولنٹن مارکیٹ میں 20 جنوری 1864ء سے اپریل کے پہلے ہفتے تک جاری رہی۔ جنوری 1890ء میں پرنس البرٹ وکٹر لاہور کے دورے پر آیا اور اسے ہاتھی پر بٹھا کر شہر میں جلوس نکالا گیا۔ اس نے 3 فروری 1890ء کو موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1892ء میں عمارت کی تعمیرو تکمیل کے بعد عجائب گھر کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔ ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی عجائب گھروں میں سرائیکی وسیب کو شامل ہونا چاہئے کہ سرائیکی خطہ دنیا کے قدیم ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سندھ میوزیم کا امتیازی وصف شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ کا عطیہ کردہ ذاتی کتب خانہ ہے جو55 ہزار کتب پر مشتمل ہے جو سندھی، اردو، انگریزی، فارسی اردو، عربی زبانوں کی نادر و نایاب کتب پر مشتمل ہے۔ یہ ذخیرئہ کتب تحقیق کرنے والے طلبہ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ پشاور میوزیم 1906ء میں وکٹوریہ میومریل ہال میں قائم کیا گیا تھا اور اب گورنر ہائوس کے سامنے واقع ہے۔ گندھارا تہذیب کا مرکز ہونے کی وجہ سے پشاور کے عجائب گھر میں اس تہذیب سے متعلق بہترین آثار موجود و محفوظ ہیں۔ گوتم بدھ کے قدیم ترین مجسموں کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے ان کے پیروکار آتے رہتے ہیں۔ اس میوزیم کا سب سے بیش قیمت ذخیرہ کنشک خاندان کے آثار ہیں جو 1908ء اور 1909ء کی کھدائیوں کے دوران شاہ جی کی ڈھیری کے کھنڈرات سے برآمد ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں صرف چار میوزیم تھے، اب تقریباً 57 میوزیم اور آرٹ گیلریاں ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم اور قابل ذکریہ ہیں:مرکزی حکومت کے زیر انتظام عجائب گھر یہ ہیں: نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی، محکمہ آثار قدیمہ کے تحت عجائب گھر ٹیکسلا، ہڑپ، سیدو شریف، عمر کوٹ، بھنبھور اور مونجو دڑو میں قائم ہیں۔ لاہور فورٹ میوزیم، علامہ اقبال میوزیم، لاہور، سبی میوزیم، سبی بلوچستان، قائد اعظم میوزیم کراچی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لسٹ میں ملتان عجائب گھر کا اضافہ ہونا چاہئے۔
مرکز کے علاوہ جب ہم صوبے کی طرف آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام عجائب گھر: لاہور میوزیم، بہاولپور میوزیم، پشاور میوزیم، کوئٹہ میوزیم، بہاول پور میوزیم، پشاور میوزیم، کوئٹہ میوزیم، دیر میوزیم، چک درہ۔ سندھ میوزیم، حیدر آباد۔ جامعات، کالجوں اور اداروں کے اپنے قائم کردہ عجائب گھر: زرعی عجائب گھر، لاہور، انڈسٹریل و کمرشل میوزیم لاہور، نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور، شاکر علی میوزیم لاہور، چغتائی میوزیم لاہور، پاکستان فارسٹ میوزیم، ایبٹ آباد و پشاور، اسلامیہ کالج میوزیم پشاور، ایئر فورس میوزیم پشاور، اسلامیہ کالج میوزیم پشاور، ایئر فورس میوزیم پشاور، آرکیالوجیکل میوزیم، پشاور یونیورسٹی۔ بونینکل میوزیم، گورڈن کالج، راولپنڈی، آرمی میوزیم راولپنڈی۔ آرکیالوجیکل میوزیم، جامعہ کراچی، نیچرل ہنٹری میوزیم، جامعہ کراچی۔ پاکستان میری ٹائم میوزیم کراچی۔ ایجوکیشن میوزیم سندھ یونیورسٹی، حیدر آباد۔ بھٹ شاہ کلچرل میوزیم، بھٹ شاہ، ڈیم سائٹ میوزیم، منگلا ڈیم۔ جیو لوجیکل میوزیم، کوئٹہ۔ صوبائی حکومتوں کی اس تمام لسٹ میں بہاولپور کے علاوہ ملتان، ڈیرہ غازیخان، ڈی آئی خان، ساہیوال، جھنگ اور میانوالی کے نام نظر نہیں آئے حالانکہ ان تمام علاقوں میں میوزیم عجائب گھر بنانے کی ضرورت ہے کہ وسیب کے آثار قومی ورثہ ہیں اور پاکستان کا سرمایہ افتخار ہیں۔ وسیب محرومیوں کا شکار ہے۔ جہاں دوسرے شعبہ جات میں وسیب سے امتیازی سلوک ہوا ہے اسی طرح وسیب کے قدیم آثار بھی ختم ہو رہے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کو اس اہم ورثے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔