صوفیانہ گائیکی کے عالمی شہرت یافتہ لوک فنکار پٹھانے خان کو ہم سے بچھڑے 21سال بیت گئے، 9مارچ 2000ء کو ان کی وفات کسمپرسی کی حالت میں ہوئی۔ مرحوم کے علاج کے لئے اُس وقت کے وزیر ا علیٰ نے کوئی توجہ نہ دی، آج وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وسیب کے طوفانی د ورے پر آئے ہوئے ہیں، وزیر اعلیٰ کو پٹھانے خان کی خدمات کے اعتراف میں زیادہ کچھ نہیں تو ان کے مقبرے کی تعمیر اور اُن کی فن و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب مرتب کروا دینی چاہیے۔ میں نے وزیر اعلیٰ کے دورے کا ذکر کیا تو اس بارے بتانا چاہتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے دورے کے دوران فرائض سے غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر اور سی پی او ملتان سمیت 12افسر معطل، چار برطرف اور 27کے خلاف کاروائی کا حکم دیاہے۔ وزیر اعلیٰ کے اس اقدام پر مقامی بیوروکریسی اور اس کے مراعات یافتہ حاشیہ برداروں کے اندر کھلبلی مچی ہوئی ہے، وہ وزیر اعلیٰ کے اقدام پر تنقید کرر ہے ہیں، اس سے پہلے اُن کی تنقید یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ بیوروکریسی کے آگے بے بس ہیں اب وزیراعلیٰ نے قدم اٹھایا تو تنقید کا رُخ بدل گیاجوکہ میرٹ کے مسلمہ اصول کے خلاف ہے۔
وزیر اعلیٰ نے ملتان اور بہاولپور میں بنائے گئے سول سیکرٹریٹ کے افسران کو بھی وارننگ دی کہ وہ کام کریں اور اپنا قبلہ درست کریں۔ دوسری طرف یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سول سیکرٹریٹ کو ختم کیا جا رہاہے اور بیوروکریسی نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے 5اہم محکمے ختم کرنے کی سمری کابینہ کو بھیج دی ہے۔ ان میں محکمہ قانون، محکمہ خزانہ، محکمہ پی این ڈی، محکمہ ایس این ڈی شامل ہیں ان خبروں پر وسیب میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ کہاں 100دنوں میں صوبہ بنانے کا وعدہ اور کہاں 900دنوں میں ملتان اور بہاولپور کے درمیان منقسم سیکرٹریٹ اور اس کی بھی ترقی کی بجائے تنزلی، یہ مذاق کے سوا کچھ نہیں، اپوزیشن کی طرف سے موجودہ حکومت پر یوٹرن کا الزام لگایاجاتا ہے۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے اگر حکومت نے اپنی ساکھ کو قائم رکھنا ہے تو اپنے وعدے کے مطابق صوبے سمیت اہم ایشوز پر جرات مندانہ قدم اٹھانا ہوں گے۔
اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ نے وسیب کا طوفانی دورہ کیا ہے تو جہاں تنقید ہو رہی ہے وہاں لاہور میں سردار عثمان خان بزدار کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے لئے سازشیں اپنے عروج پر ہیں، کہا جا رہاہے کہ اُن کی بہت جلد چھٹی ہونے والی ہے۔ ملک کے معروف ایک تجزیہ نگار ٹی وی چینل پر یہاں تک کہہ رہے تھے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر رکھ لیا گیا ہے اور کسی بھی وقت وہ اپنے عہدے سے سبکدوش کر دئیے جائیں گے۔ یہ بھی عرض کروں کہ بلاول بھٹو کا چوہدری شجاعت حسین کے گھر جانا بھی محض عیادت کے لئے نہیں بلکہ پنجاب کی وزارت ا علیٰ کے گٹھ جوڑ کے لئے تھا۔ محض کرسی اور اقتدار کی جنگ ہو رہی ہے۔ اِن تمام امور کا ایک ہی حل ہے کہ عمران خان عثمان خان بزدار کو ہٹانے کی بجائے اپنے وعدے کے مطابق صوبہ بنائیں۔ ابھی میں یہ کالم لکھ رہاہوں سامنے ٹی وی سکرین پر خبر چل رہی ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی قراردادپاس کی ہے سوال یہ ہے کہ سرائیکی خطے کا قصور کیا ہے؟ اگر گلگت بلتستان کی قرارداد ضروری تھی تو جنوبی پنجاب صوبے کی قراردا د بھی ساتھ منظور کر لی جاتی کہ صوبے کابل سینیٹ کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہو چکا ہے۔
اب ہم آتے ہیں پٹھانے خان کی طرف معروف سرائیکی گلوکار پٹھانے خان کی 21 ویں برسی خاموشی کے ساتھ گزر گئی۔ صرف ان کے اپنے علاقے کوٹ ادو میں چھوٹی سی تقریب منعقد ہوئی۔ حالانکہ وہ وسیب تو کیا پورے ملک کا فخر ہیں۔ وہ جتنے بڑے فنکار تھے، ان کی برسی اسی طرح منائی جانی چاہئے تھی۔ پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد ہے اور سن پیدائش 1926ء ہے، پٹھانے خان نے عارفانہ کلام، لوک گیت، صوفیانہ کلام اور کافی میں وہ نام کمایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے اپنے فن کا آغاز کرنے والے سپوت کو فن گائیکی کی بدولت صدارتی ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، ملینیم ایوارڈ اور خواجہ غلام فرید ایوارڈ جیسے بڑے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا۔ حکومت نے انہیں 1979ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔
ایک شعر " نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا، سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا " کے مصداق پٹھانے خان کو یہ مقام و مرتبہ بہت ہی محنتوں کے بعد ملا۔ انہوں نے بہت ریاض کیا۔ ان کے پہلے استاد بابا میر خان تھے، اس کے علاوہ بھی وہ بہت ریاض کرتے تھے، اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے، عاجزی اور انکساری ان کا وصف تھا، وہ تمام سینئرز کا بہت احترام کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے ان کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹھانے خان نے بچپن میں بہت دکھ دیکھے۔ ان کے والد دوسری کے بعد تیسری دلہن گھر لے آئے تو ان کی والدہ نے بہت دکھ دیکھے۔ اس حالت میں بچپن میں پٹھانے خان بہت بیمار ہوئے تو ان کی والدہ اپنے بیٹے کی بیماری اور دکھ نہ دیکھ سکتی تھی اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ اپنے بیٹے کی زندگی کیلئے دعا مانگتی۔ اللہ پاک نے والدہ کی دعا کو اس قدر قبول کیا کہ پٹھانے خان کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ پٹھانے خان کے فن کو زندہ رکھنے کیلئے ان کے فرزند اقبال پٹھانے خان نے انکی گائی ہوئی کافیاں گا کر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کسی دور میں ریڈیو پاکستان کی جانب سے ادو میں پٹھانے خان کی برسی کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر کچھ عرصہ سے یہ تقریب بھی منعقد نہیں کی جاتی۔ منفرد لب و لہجے کے ساتھ سریلی آواز سے اس خطے کو وہ پہچان بخشی جسے بھلایا نہ جا سکے گا۔