Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Wazir Aala Ka Ahsan Iqdam

Wazir Aala Ka Ahsan Iqdam

یہ بات خوش آئند ہے کہ وسیب کی درخواست پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے سرائیکی کلچر ڈے منانے کا اعلان کیا ہے اور وسیب کے لوگوں کے دل جیت لئے ہیں۔ گزشتہ روز سات مارچ کے اخبارات میں جو رنگین اشتہار شائع ہوا ہے اُس کی تحریر اس طرح ہے کہ سرائیکی کلچر ڈے 7مارچ، ہماری ثقافت ہماری پہچان، حکومت پنجاب کی جانب سے سرائیکی ورثہ کو سلام، وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر، سرائیکی ثقافتی، تقاریب کا انعقاد، لوک موسیقی، کلچرل شوز و دیگر ثقافتی تقاریب، سرائیکی فنکاروں کی خصوصی پرفارمنسز، ثقافتی دستکاریوں کی نمائش۔ یہ تحریر بہت عمدہ ہے اور فیصلہ بھی اچھا ہے لیکن یہ بھی عرض کروں گا کہ کاش یہ فیصلہ پہلے کیا جاتا اور سرائیکی کلچر ڈے اس کی اصل تاریخ 6مارچ کو منعقد ہوتا تو خوشیاں دوبالا ہو جاتیں، ہر تہوار کا ایک دن مقرر ہوتا ہے جیسے کہ بلوچ کلچر ڈے کی ایک تاریخ مقرر ہے اسی طرح سندھی پنجابی اور بلوچی کلچر ڈے کی بھی تاریخ مقرر ہے۔ بہر حال دیر آ ید درست کے مصداق اچھا فیصلہ ہے اور اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرنا چاہتا کہ میرے کہنے پر وزیر اعلیٰ نے یہ قدم اٹھایا ہے البتہ میں نے وزیر اعلیٰ کو اس سلسلے میں درخواست بھیجی تھی چونکہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے تو ہر تاریخی فیصلے کا ریکارڈ بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

میں نے اپنی درخواست کے ساتھ ساتھ مورخہ 3مارچ 2021ء روزنامہ جھوک ملتان میں بھی شائع ہوئی اس میں میں نے لکھا کہ 6 مارچ سرائیکی کلچر ڈے ہے ہماری درخواست کے باوجود آپ نے 6مارچ کو سرائیکی سطح پر منانے کا اعلان نہیں کیا، اس کے برعکس 2مارچ کو صوبے بھر میں بلوچ کلچر ڈے منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ بلوچ کلچرل ڈے سر آنکھوں پر مگر سرکاری طور پر اسے بلوچستان حکومت کو منانا چاہئے، پنجاب میں سرکاری محاصل کو پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری ثقافت کے فروغ کے لئے بھی خرچ ہونا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ کو لوگ غلط مشورے دے رہے ہیں اور ن لیگ جسے وسیب کے لوگ وسیب دشمن خیال کرتے تھے، کی مقبولیت میں اضافہ ہورہاہے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اصول کے بر عکس بات نہیں کریں گے اور وہ بات کریں گے جو میرٹ پر ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کے گھر کی سیکنڈ لینگویج سرائیکی ہے اور وہ جس عہدے پر براجمان ہیں یہ عہدہ ان کو وسیب کے ووٹوں سے حاصل ہوا ہے۔ انہیں 6 مارچ کو سرائیکی کلچرل ڈے منانے کی ہدایات کرنی چاہئیں اور انہیں وسیب کی نمائندگی کا حق ادا کرنا چاہئے۔

راقم نے لکھا کہ آپ کا یہ کہنا شاید درست نہیں کہ بھائی چارے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے بلوچ کلچر ڈے منایا جا رہاہے حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے فاصلے بڑھیں گے اور چار سو سالوں میں باہر سے وسیب سے میں آکر آباد ہونے والی اقوام اورقدیم سرائیکی وسیبی لوگوں کے درمیان فطری طور پر جذب پذیری کا جو عمل مکمل ہوا ہے، کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ میں صاف بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے اقدامات سے وسیب میں تفریق پیدا ہو رہی ہے۔ جبکہ وسیب میں رہنے والے تمام بلوچ سرائیکی ہیں اور چار سو سالوں سے سرائیکی زبان و ادب کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے مگر حکمرانوں کے فیصلے اور اقدامات دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ بھائی چارے والی بات اس وقت درست ہو سکتی تھی جب بلوچستان حکومت سرائیکی یا پنجابی کلچر ڈے منا رہی ہوتی۔

راقم نے آخر میں لکھا کہ میری درخواست ہے کہ آپ وسیب کے ووٹوں سے برسراقتدار آئے ہیں آپ کو وسیب کی تہذیب، ثقافت کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور سرائیکی کلچر ڈے سرکاری سطح پر منانا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ جس طرح لاہور میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لئے پلاک کے نام سے ادارہ بنایا گیا ہے اسی طرح سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کے لئے سلاک کے نام سے ادارہ بنایا جائے۔ ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ سرائیکی کلچر ڈے کی طرح وزیر اعلیٰ میری دوسری درخواست پر بھی غور کریں گے اور پلاک کی طرز پر سلاک کا ادارہ قائم کریں گے اور سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کے لئے خدمات سرانجام دیں گے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ کو پوٹھوہاری زبان و ادب کے فروغ کے لئے بھی کام کرنا چاہیے کہ ثقافتوں کا فروغ پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے اس سے محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی، عدم برداشت کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔ گذشتہ روز یعنی 6مارچ کو پورے ملک میں سرائیکی کلچر ڈے کے حوالے سے جو تقریبات منعقد ہوئیں اس کا مثبت پیغام جگہ جگہ پہنچا۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار خان کے اعلان پر وسیب میں جو ثقافتی دن منایا جا رہا ہے اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اور سرائیکی وسیب جو کہ عرصہ دراز سے محرومی کا شکار ہے اور وسیب کی شناخت کا مسئلہ ایک حساس کیفیت اختیار کر چکا ہے۔ حکومت کو اپنے صوبے کے وعدے کی طرف بھی پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ وسیب کااحساس محرومی ختم ہو اور پاکستان مستحکم ہو۔