Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Muhib Watan Pakistani

Muhib Watan Pakistani

لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد اسلامی ممالک میں آباد جہاں وہ کسی مقامی باشندے کے نام پر مزدوری یا کاروبار کرتے ہیں اور کاروبار کے لیے مقامی افراد کے محتاج ہیں لیکن دوسری طرف غیر مسلم ممالک میں نہ صرف انھیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے بلکہ وہ مقامی غیر مسلموں کے برابر حقوق کے بھی حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں وہاں کی شہریت بھی ان کو مل جاتی ہے اور نہ صرف وہ ووٹ دیتے ہیں بلکہ اب تو ایک بڑی تعداد انتخابات میں خود حصہ بھی لیتی ہے اور انتخابات جیت کر اہم عہدوں پر فائز بھی ہوتے ہیں۔

پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقامی امیدواروں کی کامیابی وناکامی میں فیصلہ کن کردار اور اختیار کی طاقت رکھتی ہے۔ ہم یہاں پاکستان میں اپنے ان بھائیوں کی خوشحالی پر خوش رہتے ہیں اور ان کے کردار کا فخر سے ذکر بھی کرتے ہیں۔ ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ہماری قومی معیشت کی ترقی اور زرمبادلہ میں اضافے میں اہم ترین کردار ہے لیکن اس کے بدلے میں ہم انھیں یہاں پاکستان میں کیا دیتے ہیں ان کی جائیدادوں پر قبضے کر لیتے ہیں، وہ اگر ملک کی محبت سے سرشار ہو کر کاروبار کی نیت سے وطن واپس آئیں تو انھیں سرکاری دفتروں کے اتنے چکر لگواتے ہیں کہ وہ بددل ہو کر واپس لوٹ جائیں۔

ماضی میں ایک بار تو ہماری حکومت نے ڈاکہ زنی کرتے ہوئے ان کے بینک اکاؤنٹ ہی ضبط کر لیے اور ان میں جو غیر ملکی رقم موجود تھی اس کو پاکستانی روپوں میں بدل دیا۔ اس طرح کے متعدد اقدامات کر کے ہم انھیں ان کی حب الوطنی کا سبق سکھاتے رہتے ہیں۔ ہم کوئی بھی تاویل کریں بات بالکل صاف ہے کہ ہم ان پاکستانیوں سے بے وفائی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے لیکن ان سے ہمیشہ قربانیوں کے طلبگار رہے ہیں۔

پاکستان بھی دنیا سے الگ تھلگ نہیں اس لیے کورونا وباء کی وجہ سے ہم بھی متاثر ہو رہے ہیں اور حکومت چونکہ پاکستان میں موجود مخیر افراد سے مایوس ہو چکی ہے اس لیے ہمارے وزیر اعظم بار بار اپنے بیرون ملک ہم وطنوں کو امداد کے لیے پکار رہے ہیں اور مشکل وقت میں ایک بار پھر ان کو یاد کیا گیا ہے، ہمارے وزیر اعظم کا حکمران بننے سے پہلے بھی یہی دعویٰ تھا کہ بیرون ملک پاکستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر کے ملک کی کایا پلٹ دیں گے لیکن شاید حکومت ان بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کے لیے راغب نہیں کر سکی اور اس کی وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ ایسے قوانین وضع نہیں کیے جا سکے جس سے ان بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں تحفظ حاصل ہو اور وہ حکومتی بندشوں سے آزاد ہو کر کاروبار کر سکیں، یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں حالانکہ جتنے محب وطن یہ بیرون ملک رہائش پذیر ہیں اتنے ہم بھی نہیں جنھیں اس ملک نے نوازا بھی ہے اور شناخت بھی دی ہے۔

بیرون ملک مقیم بھائیوں نے تو قربانیاں دی ہیں اور کئی مشکلات کا سامنا کیا تب کہیں جا کر وہ ان غیر ممالک میں اپنی حیثیت بنانے میں کامیاب ہوئے، ان کی جد وجہد کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے گورنر چوہدری سرور اس کی زندہ مثال ہیں جو خود اپنی زندگی کہانی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے انڈے بیچ کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ لیکن ان پاکستانیوں نے باعزت روزگار کو ترجیح دی، کاروبار کیے اور ایمانداری کی مثالیں قائم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں کئی پاکستانی کئی شعبوں میں پاکستان کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔

ہم پاکستانی اپنے اوپر کی گئی تمام تر نا انصافیوں اورروا رکھی گئی بے اتفاقیوں کے باوجود ایک جاندارقوم ہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ ہم جس شعبے میں بھی گئے اپنا نام چھوڑ آئے، ہم دنیا کے بہترین انجینئر ہیں، بہترین کاروباری ہیں، بہترین ڈاکٹر ہیں اور بہترین شہری ہیں۔ ہم غیر معمولی حد تک ذہین لوگ ہیں یورپ و امریکا کے لوگ ہماری غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔

دنیا کی سپر پاور امریکا کے صدر کے دوستوں میں ہمارے پاکستانی شامل ہوتے ہیں جو ان کی انتخابی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی تلاش روزگار کی خاطر ان ملکوں میں ضرور گئے لیکن وہاں محض مزدور بن کر نہیں رہ گئے انھوں نے اپنی گونا گوں صلاحیتوں کو منوایا بھی ہے اور ایک خاص بات جو ہر پاکستانی میں موجود ہے وہ ہے اس کی حب الوطنی، وہ لوگ جنھیں ان ملکوں کی شہریت مل چکی ہے جن کا روزگار ان ملکوں میں ہے جنہوں نے وہاں گھر بنا لیے ہیں اور جنھیں پاکستان کی قطعاً کوئی محتاجی نہیں رہی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں وطن عزیز کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں اس کی بے عزتی کو اپنی بے عزتی اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔

زیادہ کرایہ ادا کر کے پی آئی اے پر سفر کرتے ہیں اوورسیز کارڈ کو اپنا سب سے عزیز اثاثہ سمجھتے ہیں۔ میرے کئی کرمفرما بیرون ملک سے ٹیلیفون کر کے مجھ سے ملکی حالات کے بارے میں آگاہی چاہتے ہیں، اگر انھیں کوئی تکلیف دہ خبر سنا دی جائے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔

کئی باتوں پر لڑتے ہیں، ڈانٹتے ہیں اور رو بھی پڑتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ صاف ستھری حکومتوں اور شہری انتظامیہ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ مطالبہ اور خواہش کرتے ہیں کہ ہم ان حکومتوں جیسی حکومت کیوں نہیں بناتے اور ان جیسی انتظامیہ کیوں تشکیل نہیں دیتے۔ وہ ہمارے بدعنوان سیاست دانوں کو کچا چبا ڈالنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں موجود اپنے بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تم لوگ ان غلط کار لوگوں کو برداشت کیوں کرتے ہو ان کا احتساب کیوں نہیں کرتے، اپنے وطن عزیز کو ایک اچھا ملک کیوں نہیں بناتے۔

اس کے باوجود کہ ہم نے ان سے انفرادی اور اجتماعی زیادتیوں کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا پھر بھی یہ ہمارا ہی دم بھرتے ہیں اور ایک پکا مکان پاکستان میں ضرور تعمیر کرتے ہیں۔ ایئر پورٹ پر ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اور گھر پہنچ کر عزیز رشتہ دار ان سے جو سلوک کرتے ہیں اس کے بعد تو انھیں ادھر کا رخ بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن پھر بھی وہ موقع ملتے ہی پاکستان کی طرف بھاگتے ہیں۔

ہمارے ان بیرون ملک پاکستانی بھائیوں کے پاس بہت پیسہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس زرمبادلہ کو پاکستان میں لگانا چاہتے ہیں ان کے پاس جدید ترین تجربہ بھی ہے اور محنت کی عادت ہے لیکن یہاں پاکستان میں سرکاری پالیسیاں اور افسرشاہی کی بے رحمی ان کی حب الوطنی کو ناکام بنانے میں لگی رہتی ہے۔ ان کی ناکامی کی ایسی ایسی انفرادی مثالیں ہیں کہ ان پر یقین نہیں آتا۔ یہ لوگ نہ صرف پاکستان کے قرضے اتار سکتے ہیں اور اس کی معاشی بدحالی کو خوشحالی میں بدل بھی سکتے ہیں لیکن ہم خود ان کو کچھ کرنے نہیں دیتے۔

ہماری نئی حکومت نے ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک نئے اور خوشحال پاکستان کے خواب دکھائے تھے لیکن ان خوابوں کی عملی تعبیر کے لیے کوئی واضح عملی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی اپنی خواہشوں کی نئی حکومت سے ناراض نظر آتے ہیں لیکن اگر پاکستان کی خرابیوں کو شمار کیا جائے تو اس بگاڑ کو درست کرنے میں وقت لگے گا یہاں کچھ لوگ پاکستان کو بیرون ملک پاکستانیوں کی تمناؤں کے مطابق بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور یہاں کے عوام کی بھاری اکثریت اچھے اور شریف لوگوں کی ہے، ایک دن آئے گا جب وہ سینہ تان کر ایک عظیم پاکستان کی شہریت کا دنیا بھر میں اعلان کر سکیں گے جیسے ہمیں آج ان پر فخر ہے ایسے ہی وہ کبھی ہم پر بھی فخر کریں گے۔ اقبال کے بقول ہم سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔