وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اشرافیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورنا بیماری کا شکار اگر پاکستان کا صرف غریب طبقہ ہوتا تو کبھی لاک ڈاؤن کرنے میں اتنی تیزی نہ دکھائی جاتی، حکمران اشرافیہ نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کیا ان امیروں نے غریبوں اور مزدوروں کا سوچا ہی نہیں۔ جناب وزیر اعظم اگر اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ وہ کون سی اشرافیہ ہے جو حکمرانی کر رہی ہے تو صورتحال مزید واضح ہو جاتی۔ بہر حال ان دنوں اخبار کے تبصروں اور ٹیلی ویژن کے تجزیہ کاروں کا ہر تجزیہ عمران خان اور ان کی حکومت کے ’گن، گاتے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے یعنی جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے۔
ہونا بھی یہی چاہیے کہ عمران خان اس ملک کے حکمران ہیں اور عوام کے اچھے برے کے ذمے دار ہیں اس لیے تبصروں میں بھی انھی کا ہی ذکر ہو گا۔ چند روز پہلے کورونا کے لیے چندہ جمع کرنے کی ایک براہ راست تقریب میں ملک کے نامور صحافی موجود تھے جس کے اختتام پرممتاز مبلغ مولانا طارق جمیل نے دعا کرائی جس پر ہمارے بعض صحافتی حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا، بعد میں مولانا نے خود اپنے ان دعائیہ الفاظ پر معذرت کی جو انھوں نے صحافت کے شعبہ کے لیے کہے تھے۔
میں کسی مذہبی معاملے میں تبصرے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں کہ میری کوئی تحریری غلطی کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بن جائے اور مجھ پر کوئی فتویٰ نہ لگ جائے لیکن آج کل ہمارے قارئین اور ناظرین ہر مسئلے پربلا توقف اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور اپنا رد عمل ظاہر کرنے سے باز نہیں آتے خواہ یہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہوخاص طور پر جب سے سوشل میڈیا کا بے لگام میڈیم شروع ہوا ہے اس کے بعد تو الامان الحفیظ والا معاملہ ہے لیکن یہ رویہ ایک جاندار اور زندہ قوم کا رویہ ہے اور اگر شروع دن سے ہی قوم اپنے حکمرانوں اور اپنے صحافیوں کو کڑی نظر سے دیکھتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی جو ایک نوجوان نے اپنے ٹیلی فون پر پیغام میں لکھا ہے کہ آپ لوگ عمران خان کو ابھی تک نو آزمودہ سیاست دان بولتے اور لکھتے ہیں ان کی خوبیوں کا کم اور غلطیوں کا بہت تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ اس نوجوان نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ آپ نے زندگی کے بیشتر حصہ میں پاکستان میں مختلف حکومتوں کو دیکھا یعنی آپ نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے جن میں عموماً وڈیرے اور زمیندار ہی شامل ہوتے تھے۔
جنہوں نے اس ملک کی کل عمر کے آدھے سے بھی کم عرصے تک حکمرانی کی اور آدھے سے زیادہ عرصہ یہ ملک غیرجمہوری حکمرانوں نے سنبھالے رکھا، کیا آپ نے ماضی کے حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ہوں ان میں اور آج کے نئے دور کے پرجوش حکمران عمران خان میں کوئی فرق محسوس کیا ہے۔ میں اس ملک کے نوجوان طبقے سے ہوں جس نے ہوش سنبھالتے ہی لوٹ مار دیکھی ہے، آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ بوڑھے لوگوں نے ہمیں کیا دیا ہے۔ خون میں لتھڑا پاکستان، کرپشن اور بدعنوانی سے بھرپور معاشرہ، بے روزگاری، دو لخت پاکستان، دوجماعتوں کی سیاست پر مشتمل سیاست جنہوں نے آپس میں باریاں لگائی ہوئی تھیں اور اگرناگوار نہ گزرے تو میرے ملک کی صحافت جو ایک لفافے پربک جاتی ہے۔ آپ نے ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں کیے اور ہمیں کیا دیا۔ خدارا جاتے جاتے تو اپنے سیاسی اور صحافتی آباؤ اجداد کے دین سے باغی ہو کر جائیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جو آج کا نوجوان اپنے بزرگوں سے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس نوجوان کے دل کی جو آوازتھی اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے مجھ تک پہنچا دی۔ اس نوجوان نے جو بھی لکھا میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس کے دکھی دل کی آواز ہے، آج کے پاکستان کا نوجوان یہی سوچتا ہے جب وہ اخبار اور ٹیلی ویژن پر نئی دنیا کو دیکھتا ہے تو اس کا دل بہت دکھی ہوتا ہے اور اس سے ہوک اٹھتی ہے۔
اپنی محرومیوں پر وہ جس قدر بھی غصہ کرے کم ہے۔ ہمارے نوجوان اپنی ذہانت اور محنت میں کسی سے کم نہیں ہیں اور ان کا ملک پاکستان اپنے وسائل کے اعتبار سے کسی دوسرے ملک سے کم نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں سے ہمارے ہاں وسائل کچھ زیادہ ہی ہیں۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ قرآن پاک کی سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے ان سے بھی کچھ پاکستان میں دستیاب زیادہ ہیں۔ لیکن ان سب نعمتوں کے باوجود ہمارے نوجوان ان نعمتوں سے محرومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ اگر اس کی ذمے داری اپنی پرانی نسل پر ڈالتے ہیں تو غلط نہیں کرتے۔ ہمیں اس ذمے داری کو قبول کرنا ہے اور اس کے لیے کوئی تاویل پیش کرنے اور کوئی بے گناہی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں اپنی نسل کا جواب دہ بھی ہوں اور اس ماضی کا بھی جس کا میں حصہ رہا ہوں۔ آج کا نوجوان اپنی امنگوں میں اگر عمران خان کو زندہ دیکھتا ہے تو وہ اپنی دانست میں درست ہے، عمران خان نے بلا شبہ اس ملک کے نوجوانوں کو ملکی معاملات میں شامل کیا ہے اور اس سے ابھی تک نوجوانوں کو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی، خدا کرے کہ وہ پاکستانی نوجوانوں کی امنگوں، امیدوں اورمرادوں پر پورا اترے، ان کے خوابوں کو تعبیر دے اور ان کو ماضی کی سیاسی آلائشوں سے محفوظ رکھے۔ خدا نہ کرے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے لیکن اگر ایسے نوجوان غافل نہ ہوئے اور اپنے حکمرانوں اور ملک کے دوسرے طبقوں سے باز پرس کرتے رہے تو ان کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں گی۔
انسان پر کڑی نگرانی ہی اسے راہ راست پر رکھ سکتی ہے ورنہ وہ راہ راست سے ہٹنے اور حرص و ہوس کی دنیا میں جانے سے چوکتا نہیں ہے۔ جمہوریت میں نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے کھلے رہتے ہیں اور ان کے جوان خواب اپنی تعبیر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بس یہ حسرت ہے کہ ہم پرانی نسل کے لوگوں کے خواب تو ہمارے بڑوں نے پورے نہیں ہونے دیے لیکن خدا کرے ہماری نئی نسل کے خواب اپنی تعبیر دیکھ لیں ان کا مقدر بدل جائے اور وہ اپنے ادھورے خوابوں کا ماتم نہ کریں۔