رمضان المبارک کا استقبال اس بار ایک خاص ماحول میں کیا جارہا ہے جب دنیا وباء کی لپیٹ میں ہے اور وباء کے ٹلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ بطور مسلمان ہمیں اس مبارک مہینہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر اپنی سلامتی کی دعائیں کرنی ہیں تا کہ وہ ہم گنہگار انسانوں پر اپنا کرم و فضل کرے اور اس وبائی مرض سے ہماری جان چھوٹ جائے۔
اپنے آپ پر اترانے اور دنیا کا حکمران سمجھنے والی بڑی طاقتیں اس وبائی مرض کے سامنے بے بس ہو چکی ہیں جو ان کی اس بات کی نفی کرتا ہے کہ وہ اس دنیا کی سپر پاور ہیں۔ ہم مسلمان اگر اپنے ایمان پر ہوں تو ہم یہ جانتے ہیں کہ کل جہان کی سپر پاور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو رب العالمین ہے وہ واحد و لاشریک ہے۔
اس وبائی مرض نے اسلام کی تعلیمات کو دنیا پر مزید واضح کیا ہے، کفر کا وہ معاشرہ جہاں پراپنے جسم کی صفائی کے لیے پانی کو ایک شجر ممنوع کی طرح استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اب اس بات کا درس دینے پر مجبور ہیں کہ بار بار صابن کے ساتھ ہاتھ دھوئیں تا کہ ہاتھوں پرجراثیم کا خاتمہ ہو سکے۔ جب کہ ہمارے دین میں طہارت وپاکیزگی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے۔
مسلمان دن میں پانچ بار وضو کر کے اپنے جسم کو پاک کرتے ہیں، آج کل کی جدید سائنس یہ بتاتی رہتی ہے کہ انسان کے کس عمل سے کون سی بیماری سے جان بچائی جا سکتی ہے اور کئی ایسی بیماریاں ہیں جو باوضو رہنے سے انسان کے قریب بھی نہیں پھٹکتیں۔ اسی لیے تو اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دے کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انسان کو اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے تا کہ وہ صحت مند رہے کیونکہ گندگی بذات خود ایک بہت بڑی بیماری ہے۔
ہم سنتے آئے ہیں کہ انگریزوں کے ہاں غسل کبھی کبھار ہی ہوتا ہے بلکہ کچھ وقت پہلے تک تو انگریزوں کے ہاں غسل خانے ہی نہیں ہوتے تھے اور وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ سمندر پر جا کر نہا لیتے تھے۔ اپنے بدن کی گندگی صاف کرنے کے لیے وہ آج بھی کاغذ کا استعمال کرتے ہیں اور بدن کو خوشبودار رکھنے کے لیے انھوں نے مختلف اقسام کی خوشبوئیں ایجاد کر لیں لیکن نہانے سے دور رہے۔ موجودہ وباء میں غیر ممالک میں جن اشیاء کی فوری قلت ہوئی ان میں ٹشو پیپر بھی شامل تھے۔
انگریزوں کو صفائی کی تعلیم بلاشبہ اسلام نے دی ہے مسلمان جب محنت مزدوری کے لیے یورپ اور امریکا پہنچے توانھوں نے وہاں گھرکے کسی کونے کھدرے میں جو جگہ فالتو قرار دے کر چھوڑ دی گئی تھی وہاں پر پردے وغیرہ لگا کر نہانے کا بندوبست کیا۔ آج بھی یورپ جائیں تو وہاں پرانے گھروں میں ایک چھوٹا سا ٹوائلٹ ہو گا جہاں پر نہانے کی جگہ نہیں ہو گی اور نہانے کے لیے گھر میں کسی اور جگہ بندو بست کیا گیا ہو گا۔ میں خود یورپ میں کئی ایسے گھروں میں مہمان رہا ہوں جہاں گھر کے کسی کونے میں غسل خانہ بنایا گیا تھا۔
رمضان المبارک کے آغاز سے شروع کی جانے والی بات کہیں اور نکل گئی۔ رمضان کا مہینہ بڑا ہی مبارک مہینہ ہے جس میں عبادات کا اجر ہی اور ہوتا ہے اس کی تفصیلات آپ کو اخباروں میں علماء کے مضامین میں مل جاتی ہیں ہم جیسے کالم نویس جو تما م عمر سیاست پر لکھ کر صفحے کالے کرتے رہے ہماری کیا مجال کہ ہم اس قسم کی تفصیلات بیان کر سکیں سوائے اس امید کے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے جیسے بے عمل لوگوں کو بھی معاف فرمائے گا جو اپنی تحریروں میں شاید کوئی نیکی کا کام کر جاتے ہوں۔
آج کل کے زمانے میں کتابیں پڑھنا مشکل ہو گیا ہے اور اس مشکل کا حل یہ ہے کہ اخباروں میں ان مستندکتابوں سے مضامین نقل کر کے قارئین تک پہنچائے جاتے ہیں یوں ایک عام آدمی کی مستند معلومات تک آسان رسائی ہو جاتی ہے جس کا اجر یقینا اخبار والوں کو بھی مل جاتا ہو گا اور ہمارا رمضان اسی امید پر گزر جاتا ہے۔ آزمائشوں کے اس دور میں قدرت نے وقت کے چکر میں ہمیں رمضان المبارک کے استقبال کا فریضہ بھی دے دیا ہے جس کا آغازماہ رمضان کی چاند کی رویت کے متعلق رویت ہلال کمیٹی کے مطابق آج سے ہو گیا ہے۔
سائنسی نقطہ نگاہ سے بھی فواد چوہدری بہت پہلے سے اسی تاریخ کا اعلان کر رہے تھے۔ بہر حال رمضان میں میرے جیسے معذور مسلمانوں کی آزمائش بھی شروع ہو چکی ہے۔ میں اس گائوں کا باشندہ ہوں جہاں پر رمضان المبارک کے مہینے میں دنیا ہی بدل جاتی ہے شرعی عذر کے سوا روزہ قضاء کرنے کا کوئی تصور نہیں۔
روزہ قضاء کرنے میں بیماروں کے علاوہ ایک رعایت سفر کی وجہ سے بھی دی جاتی ہے اس کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ امام ابن تیمیہ کہیں سے لوٹے تو دمشق میں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا لوگوں نے تعجب کے ساتھ امام پر اعتراض کیا تو انھوں نے وجہ بتا دی کہ سفر میں رعایت ہے لیکن کھلے عام کھانے پر اس سخت مزاج عالم کو کسی نے کچھ نہ کہا۔
روزے کے احترام کے لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی شرعی مجبوری ہے تووہ چھپ کر کھا پی لے۔ اسی طرح ایک روزے دار کو جو مراعات حاصل ہیں ان سے اس کو روکنا غیر شرعی ہے ایک موقع پر حضرت صلاح الدین ایوبی مہینہ بھر جنگ میں مصروف رہے اور جہاد کے دنوں میں روزہ نہ رکھا چنانچہ جنگ ختم ہوئی اور وہ دمشق لوٹ آئے اور روزوں کی قضاء شروع کر دی لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار پڑ گئے اور اس بیماری میں یہ مجاہد اللہ کے حضور پیش ہو گیا لیکن ان روزوں کی قضاء وہ بر سر عام کر رہے تھے لوگوں کو علم تھا کہ اس مجاہد نے جہاد کے دوران روزے نہیں رکھے تھے۔
پہلے وقتوں میں بچوں کے لیے سحری کے وقت ہی کھانا تیار کر کے سرپوش میں رکھ دیا جاتا تھا۔ سرپوش آج کل کا ہاٹ پاٹ ہے جو مٹی سے بنتا تھا اور اسے آگ میں پکاکر مضبوط بنایا جاتا تھا جس میں روٹی کی تازگی اور نرمی برقرار رہتی تھی۔
رمضان کے مہینے میں دنیا ہی بدل جاتی ہے جب صبح ناشتے سے لے کر شام کے کھانے تک سب کچھ بند ہو تو پھر کیا ہوتا ہے روزہ رکھ کر آپ دیکھ لیں کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی مطلوب ہے ورنہ بھوک پیاس برداشت کرنا ایک عام آدمی کے لیے بہت مشکل کام ہے لیکن مسلمان کا روزے رکھنے کا عہد اس کو ہمت دلاتا ہے اور وہ عام زندگی سے ہٹ کر نماز اور عام زندگی کی نیکیوں کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ انسان بن جاتا ہے جو اپنے پرانے معمولات سے ہٹ کر اپنے آپ کو ایک نئے انسان کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، جو رمضان کے مہینے کا اصل مقصد بتایا گیا ہے کہ یہ مہینہ انسانوں کو بدل دیتا ہے اور اس کی عبادات قبول ہوں تو اگلے جہان میں بھی روزہ دار کی زندگی بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ سب کو رمضان کی مبارکباد اور مجھ گنہگار کو دعائوں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔