Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ab Maza Lete Rahiye

Ab Maza Lete Rahiye

مزہ آتا ہے تو خوشی ملتی ہے اور خوشی ہوتی تو مزہ ملتا ہے۔ یعنی مزے میں خوشی اور خوشی میں مزہ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ مزہ ایسی باتوں پر بھی آتا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہیں اور عقل ان میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ الجھن میں مزہ آئے تو ہے نا مزے کی بات۔ آپ یقین نہیں کر رہے؟ حیرت ہے۔ آپ نے کبھی بازی گر کا تماشا نہیں دیکھا؟ وہ خالی ٹوپی سے تین تین خرگوش نکال کر دکھاتا ہے تو کیا آپ کو مزا نہیں آتا؟ حالانکہ آپ کی عقل الجھ کر رہ جاتی ہے کہ خالی ہیٹ میں سے تین تین خرگوش کہاں سے نکل آئے؟ مشہور جادوگر ڈیوڈ کو پرفیلڈ نے ایک بار ایک ہال میں اپنی جیب سے ڈیڑھ دو سو پرندے نکال کر دکھائے تھے، سارا ہال رنگ برنگی چڑیوں سے بھر گیا تھا۔ ایسے تماشے دیکھ کر آپ کے منہ سے اردو میں "ارے" نکلے، انگریزی میں "وائو" یا سندھی میں "ونج بھنا"۔ یہ ظاہر میں اظہار حیرت ہے لیکن اصل میں اظہار مسرت۔ لیکن اگر بازی گر آپ کے خرگوش اپنے ہیٹ میں غائب کرنا شروع کر دے تو…؟ بات تو وہی ہے جو شروع میں لکھی، بس ترتیب الٹ ہو گئی۔ بتائیے کیا پھر بھی مزا آئے گا؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو ٹھیک ہے، ہاں میں تو پھر خوش ہو جائیے۔ یہ مزا لینے کے دن آ گئے۔ آپ کی جیبوں سے مال نکلے گا اور نکلتا ہی چلا جائے گا اور بازی گر کے ہیٹ میں غائب ہو جائے گا اور ہوتا ہی چلا جائے گا۔ شہنشاہ معظم نے دو مہینے یہ کرتب خوب دکھانے کے بعد گزشتہ روز فرمایا ہے کہ یہ کرتب اور چلے گا۔ اچھے دنوں کے لیے مہنگائی کرنا ہی ہو گی۔ جی، وہ تو ظاہر ہے، عوام کی جیب سے پیسہ نکلے گا تو آپ کے اچھے دن مزید اچھے ہو جائیں گے۔ آپ کو مزہ آئے گا۔ عوام مزہ چکھیں گے، ایک ہی بات ہے، بس ترتیب کا ہیر پھیر ہے۔ ٭٭٭٭٭شہنشاہ معظم نے فرمایا کہ مہنگائی تب تک کم نہیں ہو سکتی جب تک باہر سے لوٹا ہوا پیسہ واپس نہ آ جائے۔ گویا مہنگائی ختم ہونے کے امکان پر ہی پانی پھیر دیا۔ نو من تیل اور رادھا کے ناچنے والی بات ہے۔ ویسے بھی سنتے ہیں کہ باہر جن کا پیسہ پڑا ہے، چند ایک کو چھوڑ کر سب کے سب آپ کی جماعت میں آ چکے، کچھ اب آئے، کچھ پہلے سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ سراج الحق، امیر جماعت اسلامی نے بھی کیا خوب بروقت تقاضا فرمایا۔ کہا بنکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ فی الحال تو اقتدار ان قرضہ معاف کرانے والوں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ کوئی وفاق میں وزیر ہے تو کوئی صوبے میں سپیکر اور کوئی گیلری میں بیٹھا تسبیح پڑھ رہا ہے اور مٹی پائو مٹی پائو، مٹی پائو…٭٭٭٭٭سچ بھی کیلنڈر کی طرح ہوتا ہے، سال کے سال بدل جاتا ہے۔ مثلاً سال بھر پہلے کا سچ یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کر لوں گا، نئے سال کا سچ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ سال بھر پہلے کا سچ اسد عمر کا یہ تھا کہ حکومت بجلی گیس تیل وغیرہ کی قیمتوں میں اتنے ارب روپے کا ناجائز منافع کما رہی ہے۔ سال رواں کا ان کا سچ یہ ہے کہ سابق حکومت نے قیمتیں نہ بڑھا کر قومی خزانے کو اربوں کھربوں سے محروم کئے رکھا۔ سال بھر پہلے سچ یہ تھا کہ شہنشاہ حضور کے تخت طائوس پر بیٹھتے ہی سمندر پار پاکستانی زرمبادلہ کی بارش کر دیں گے۔ حال کا سچ یہ ہے کہ سوکھا پڑا ہوا ہے، جو شے ہری تھی وہ بھی سوکھ رہی ہے جو پہلے سوکھی ہوئی تھی، اب سوختہ ہو رہی ہے، سال بھر پہلے کا سچ یہ تھا کہ کرپشن روک کر 8000ارب روپے اکٹھے کر کے دکھائوں گا۔ آج کا سچ یہ ہے کہ چندہ دو۔ سال بھر پہلے کا سچ یہ تھا کہ اچھے حکمران سائیکل پر سفر کرتے ہیں، نئے سال کا سچ یہ ہے کہ سائیکل کے معنی ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ یا خصوصی طیارے کے ہیں۔ سچ ہے، سانچ کو آنچ نہیں، الاّ یہ کہ نئے سال پر اس کی جگہ نیا سچ لے لے۔ قطری شہزادے کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی اربوں روپے کی سرمایہ کاری واپس لے جانے کا ارادہ بنا رہے ہیں۔ ایسا ہو گیا تو یہ "ہماری" ایک اور فتح ہو گی۔ دو مہینوں میں ہم نے سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کو بھگانے کے لیے معرکوں پر معرکے مارے ہیں۔ یہ ایک اور معرکہ ہو گا، معرکتہ الاآرا معرکہ۔ شہزادہ موصوف کو ناراضگی ہے کہ ان کی وہ بہت سی گاڑیاں حکومت نے بلاوجہ اپنے قبضہ میں لے لی ہیں جو سیف الرحمن کے کارخانے کے اندر پارک کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاڑیاں قانون کے تحت لائی گئی تھیں اور قانون کے مطابق رکھی گئی تھیں، کوئی قانونی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ بے شک کوئی قانونی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن عمرانی خلاف ورزی تو ہوئی۔ نئے پاکستان میں قانونی تقاضے بے معنی اور عمرانی تقاضے ہی بامعنی ہیں۔ ٭٭٭٭٭احسن اقبال نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ ہماری حکومت ختم کرنے کی وجوہات میں ایک وجہ سی پیک بھی تھا۔ ایک وجہ نہیں، بڑی وجہ۔ شہنشاہ حضور نے ایک بار پھر فرمایا ہے کہ سی پیک کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔ دو مہینوں میں کتنی ہی بار ازسر نو جائزے لئے جا چکے ہیں۔ سی پیک کو پرندہ مان لیا جائے تو اس کے پر، دم اور چونچ سبھی کی کتر بیونت ہو چکی ہے۔ مزید ازسر نو کیا ہو گا، اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال، اس قضیے میں ایک بات ثابت ہوئی ہے یہ کہ شہنشاہ معظم بہت تمیز دار ہیں۔ تہذیب کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ تمیز دار اور مہذب گھرانوں میں میزبان نامطلوب مہمان کو کبھی جانے کا نہیں کہتے۔ بس بار بار گھڑی دیکھتے ہیں یا دوسرے اشارے دیتے ہیں۔ مہمان سمجھدار ہو تو خود ہی اجازت چاہتا ہے اور پانداں سمیت رخصت ہو جاتا ہے۔ سی پیک کے پاندان کا اب کیا ہو گا۔ انحصار چین کی "سمجھداری" پر ہے۔ سمجھداروں کے لیے ایک ہی اشارہ کافی ہوتا ہے۔ یہاں تو ایک کے بعد ایک اور ازسر نو کے بعد مزید ازسر نو کے اشاروں کی قطار لگ گئی۔ ٭٭٭٭٭واشگاف اعلان ہوا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وزیر اعلیٰ تبدیل نہیں ہو گا۔ قبلہ شاہ قریشی کے ارمانوں پر کچھ ٹھنڈ سی نہیں پڑ گئی، قبلہ کی سرزمین مقدس کی یاترا بھی کچھ کام نہیں آئی جہاں سے وہ ابھی دو روز پہلے لوٹے ہیں۔ اپنے مدمقابل ایم پی اے کو بھی ناحق نااہل کر دیا۔ لگتا ہے ابھی اسی دربدر والی وزارت پر گزر کرنا ہو گا۔ خیر، انہیں اتنا بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ شاہراہ وفاداری پر چلتے رہیں، چلتے چلتے نہ جانے کب "یوٹرن" آ جائے اور دل کی مراد بر آئے۔ ٭٭٭٭٭کھاد کی بوری مزید 50روپے مہنگی ہو گئی ہے اور اب قیمت میں کل اضافہ 130روپے کا ہو گیاہے۔ مطلب مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے۔ پچھلے مہینے یہ بوری 80روپے مہنگی ہوئی تھی، اس مہینے صرف 50روپے۔ گویا 30روپے کی کمی۔ کاشتکاروں کو مبارک ہو۔