Achi Khabrain
Abdullah Tariq Sohail85
اقتصادی کامیابیوں کے حوالے سے ایک اچھی خبر آئی ہے، پہلے وہ سن لیجئے۔ ورلڈ اکنامکس انٹیلی جنس یونٹ نامی عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ رواں سال پاکستان کی اقتصادی شرح افزائش تین فیصد سے کم رہنے کی توقع ہے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی یہ شرح جو نواز دور میں ساڑھے پانچ فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گئی تھی، کم کر کے اسے ساڑھے تین اور چار فیصد کے درمیان کر دیا تھا۔ انصاف پسند حلقوں نے ںحکومت کے اس اقدام کو سنہرا قرار دیا تھا، اب اسے مزید سنہرا کیا جا رہا ہے یعنی ساڑھے تین کو بھی کم کر کے پونے تین کیا جا رہا ہے۔ امید ہے یہ سنہرا سفر جاری رہے گا اور ہو سکتا ہے نئے سال کے آخر تک اسے دو فیصد تک کر دیا جائے۔ حق سچ کی بات ہے کہ سارا کریڈٹ 2017ء میں ہونے والے انتخابات کو جاتا ہے، ورنہ تو شرح افزائش کے ساڑھے پانچ فیصد سے بھی بڑھ جانے کا خوفناک خطرہ نمودار ہو سکتا تھا۔ یونٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 7.3فیصد رہے گی "الحمد للہ "ایک اچھی خبر اور بھی ہے۔ نیا منی بجٹ آ رہا ہے جس میں سیلز ٹیکس کی شرح ایک سے دو فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک یا دو خبر میں واضح نہیں۔ ہو سکتا ہے دو فیصد بڑھا دی جائے، اچھا تو یہ ہے کہ ایک اور دو کو جمع کر کے سیلز ٹیکس میں تین فیصد کا اضافہ کر دیا جائے۔ تین کا ہندسہ شرح افزائش کے حوالے سے میچ کر جائے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چار ماہ میں یہ چوتھا منی بجٹ ہو گا۔ بجلی اس کے آنے سے پہلے ہی چوتھی بار مہنگی کر دی گئی۔ کسی نے ایک کلپ بھیجا ہے، عمران خان کے خطاب کا۔ بڑے پرجوش، پر یقین اور پر اعتماد لہجے میں فرما رہے ہیں کہ میری حکومت میں ملک ٹیکس ہالیڈے ہو جائے گا۔ روزگار ملیں گے، نوکریاں ملیں گی۔ مہنگائی کم ہو گی۔ غریب امیر کا فرق کم ہو جائے گا۔ ان کے وعدوں پر تب بھی اعتبار تھا، لیکن اتنی برق رفتاری سے خوشحالی کی منزل طے کی جائے گی۔ یہ پتہ نہیں تھا، بہرحال، اب پتہ لگ گیا ہے(پنجابی میں :لگ پتہ گیا ہے)٭٭٭٭٭پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے تحریک انصاف نے مڈٹرم الیکشن کرائے تو پھر جیتنے کا سوچے بھی نہیں۔ پارٹی کے ایک اور رہنما نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کو پھر 35سیٹیں بھی نہیں ملیں گی۔ پیپلز پارٹی کو اتنا یقین کیوں ہے کہ مڈٹرم الیکشن پی ٹی آئی ہار جائے گی۔ کیا فتح و نصرت کا فیصلہ کرنے والے نئے الیکشن میں بازی پلٹنے نہیں آئیں گے؟ ایک معاصر نے لکھا ہے کہ خاں صاحب کی شدید خواہش ہے کہ نئے الیکشن کرا دیے جائیں لیکن انہیں بتا دیا ہے کہ اس بار من و سلویٰ اتارنا مشکل ہو گا۔ خیر، جس بات کا پیپلز پارٹی اقرار نہیں کر رہی، وہ یہ ہے کہ بات اب مڈٹرم الیکشن سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ نواز شریف نے بھی اپنے کارکنوں کو کہہ دیا ہے کہ اس کا امکان ہے، اس لئے تیار رہیں لیکن محب وطن حلقے الیکشن کا ڈول ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ ایک وجہ تو وہی ہے جو سب جانتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی طور الیکشن ہو بھی گیااور خاں صاحب کو دو تہائی اکثریت ملی گی تو کہیں خاں صاحب ہی اکڑ نہ جائیں، یعنی وہی بات ہو جائے کہ جِس پہ یہ تکیہ تھا وہی پتہ ہوا دینے لگا۔ چنانچہ قومی حکومت بنانے کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ یہ قومی حکومت قومی منظر کو صاف ستھرا کرنے کے بعد ہی بنائی جائے گی۔ یعنی نواز، زرداری اپنی صف دوئم، سوئم کی ساری قیادت سمیت جیلوں میں ڈال دیے جائیں گے۔ اپنی قومی حکومت کا چاند صاف، بے ابر مطلع پر ہی چمکے گا اور ساتھ میں مولانا فضل الرحمن، اچکزئی وغیرہ بھی ان اصحاب کے ہم نفس ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭یہ "قومی حکومت" پھر کرے گی کیا؟ اس سوال کے جواب میں ایک محب وطن کی رپورٹ یہ ہے کہ جون کے بعد کسی محب وطن کو ملک کا صدر بنایا جائے گا جو پارلیمانی نظام سے ملک کی جان چھڑوائے گا کیونکہ پہنچنے والے اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت ساری خرابیوں کی جڑ ہے، مضبوط مرکز اور صاحب اختیار، محب وطن صدر ہی قوم کو خوشحالی اور استحکام کی منزل پر لے جا سکتا ہے۔ عین مین ایوب خاں کا فلسفہ۔ لیجئے صاحب، ہم پھر سے 1958ء میں جا رہے ہیں۔ زرداری صاحب 15سال پیچھے لے جانے کا نوحہ پڑھ رہے ہیں، یہاں پورے ساٹھ سال پیچھے جانے کا طے ہو رہا ہے۔ یہ حلقے بتاتے ہیں کہ محب وطن کوئی اور صاحب ہوں گے، تبدیلی والے نہیں۔ کیوں حضرت، جون کے بعد خاں صاحب کی حب الوطنی کو کیا ہو جائے گا؟ چلئے، غنیمت ہے کہ جون تک بہرحال اپنے خاں صاحب کی حب الوطنی برقرار رہے گی۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ وزیر اطلاعات نے شراب پر پابندی کے مطالبے کی مخالفت کر دی ہے۔ یہ جرات اور دلیری عمران خاں اور ان کے شیروں کی کا خاصہ ہے۔ بھلا پیپلز پارٹی کا کوئی وزیر ایسی بات کرنے کی جرأت بھی کر سکتا تھا۔ وزیر اطلاعات نے بروقت اعلان حق کر کے گربہ کشتن روز اوّل کا بھی حق ادا کر دیا۔ اگر آج ان لوگوں کا سر کچلا نہ گیا تو کل کلاں یہ کوئی بھی گل کھلا سکتے ہیں۔ اس بیان کو آئے ہوئے چار دن گزر گئے۔ لیکن کہیں سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ خیر، اس بیان سے دو روز پہلے آپ نے شراب پر پابندی کی قرار داد کے محرک رمیش کمار کو سستی شہرت کا متلاشی قرار دیا تھا۔ رمیش کمار وزیر اطلاعات کے ہم جماعت ہیں۔ وزیر اطلاعات نے بہت اچھی دلیل اس موقع پر دی۔ فرمایا، پابندی کی ضرورت اور فائدہ کیا جس نے پینی ہے، وہ پاپندی کے باوجود بھی پیتا رہے گا، جس نے نہیں پینی، وہ پابندی کے باوجود نہیں پیتا رہے گا۔ دلیل کیا ہے، مشعل راہ ہے اور سنہرا اصول، سارے جرائم، تمام ممنوعات پر لاگو ہونا چاہیے۔ جرم قرار دینے کا فائدہ کیا، جس نے کرنا ہے کرتا رہے گا، جس نے نہیں کرنا، نہیں کرتا رہے گا۔