Adhoora Naqsha
Abdullah Tariq Sohail90
وطن کا پرچم اور نقشہ ہر ذہن میں نقش ہوتا ہے لیکن چودہ اگست کو یہ نقش خصوصیت کے ساتھ ذہن میں ابھرتا ہے۔ پھر اس دن اخبارات کے خصوصی صفحات پر بھی یہ نقشہ ہوتا ہے۔ آج کے نوجوانوں اور دوسرے جوان العمر لوگوں کو بھی ہمیشہ کی طرح اس دن اس پرچم اور نقشے کی تصویر لوح دماغ پر جگمگاتی محسوس ہوتی ہوگی۔ نقشے کی بات خصوصیت سے قابل ذکر اس لیے ہے کہ پرچم تو جا بجا نظر آتا ہے، نقشہ کبھی کبھار۔ پرچم علامت ہے، نقشہ وطن کی تصویر ہے۔ لیکن ہم لوگوں کے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی میں معاملہ مختلف تھا۔ یہ نقشہ نہیں تھا جو آج کتابوں، رسالوں میں چھپتا ہے اور لوگوں کے ذہن میں ہے۔ ہم جب بھی اس نقشے کو دیکھتے ہیں تو یہ مانوس نظر نہیں آتا۔ اس میں بہت بڑی کمی ہے۔ ہمارے دور میں اخبارات چودہ اگست پر ایک صفحہ مخصوص نہیں کرتے تھے، پورے چار صفحات کا ایڈیشن نکالتے تھے۔ وہ صفحات ہوتے تھے جو یوم آزادی پر ملک بھر کے سرکاری، کاروباری اور صنعتی اداروں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے تھے۔ اب نجی شعبے کے سارے اشتہار ٹی وی کے پاس چلے گئے ہیں، اخبارات، ٹینڈر نوٹس، تعلیمی اداروں اور ملازمت کے مواقع والے اشتہارات پر گزارا کرتے ہیں۔ اس دور میں اخبارات کے خصوصی ایڈیشن کا سرورق بھی ہوتا تھا، کسی رسالے کی طرح۔ پورے صفحے پر ایک ہی منظر۔ مضامین اندر کے صفحات پر ہوتے تھے۔ دو تین عشروں سے سرورق کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ کچھ تصویروں کے ساتھ عملے کے لکھے ہوئے رائٹ اپ کے ساتھ پہلا صفحہ بھر دیا جاتا ہے۔ یہ رائٹ اپ کوئی نہیں پڑھتا، خود لکھنے والے بھی نہیں۔ اس دور میں اخبارات چودہ اگست پر ہر بار ایک ہی طرح کی تصویریں اور مضامین چھاپتے تھے جو قوم کے لیے "ٹیکسٹ بک" کی حیثیت رکھتے تھے۔ ٹیکسٹ بک دو سال وہی رہتی ہے یا کم و بیش رہی۔ جدوجہد آزادی کے سیاسی مرحلوں اور پھر تاریخ کی ایک عظیم ہجرت اور قتل عام کی تصاویر اور انہی موضوعات پر مضامین۔ ہر سال کے اعادے سے لوگوں کے ذہن میں تحریک آزادی کی کہانی کا اعادہ ہو جاتا اور تصاویر سے ہجرت اور عظیم قربانیوں کا۔ ہر بار یہی لگتا کہ پاکستان کل ہی بنا ہے۔ انہی ایڈیشنوں کے سرورق پر پاکستان کا نقشہ بھی چھپتا۔ وہ نہیں جو آج ہم دیکھتے ہیں اور جو ہماری نسل کے لیے نا مانوس ہے، اصل اور حقیقی نقشہ جو 1971ء میں تبدیل ہوگیا۔ برصغیر کا خاکہ دکھایا جاتا اور اس کے مشرقی اور مغربی حصوں کو سبز رنگ سے بھراجاتا اور لکھا جاتا "پاکستان"۔ یہ تھا مکمل نقشہ اور اس نقشے کی انوکھی بات تھی کہ دنیا میں ایسا نقشہ کبھی کسی ملک کا پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ پاکستان اس بارے میں بالکل انوکھا اور یکتا تھا۔ دو برابر کے حصے (رقبہ کے اعتبار سے اگرچہ ایک کم تھا) ایک دوسرے سے دور، بیج میں ایک بڑا ملک، لگ بھگ ہزار میل کی چوڑائی میں یہ درمیانی علاقہ دشمن کا تھا، دوست کا نہیں۔ ٭٭٭٭٭دنیا کے کچھ اور ملک ہیں جن کے نقشوں میں پاکستان کے اس کامل نقشے کی معمولی سی مشابہت پائی جاتی ہے لیکن یہ محض جزوی مشابہت ہے اور ان کیتعداد پانچ یا چھ ہے۔ مثلاً ملائیشیا ہے جس کا اصل حصہ ملایا کے نام سے مین لینڈ ایشیا میں ہے۔ چھوٹا حصہ چند سو میل دور انڈونیشیا کے جزیرے یورپین کے شمال میں ہے۔ بیچ میں کوئی ملک نہیں، بین الاقوامی سمندر ہے۔ امریکہ کی بھی ایسی جزوی مشابہت ہے۔ کینیڈا کو پار کر کے اس کا ایک حصہ، ایک ریاست الاسکا کے نام سے آتی ہے۔ یہ ایک بڑے رقبے والی ریاست ہے لیکن امریکی آبادی کے تیسویں حصے سے بھی کم پر مشتمل ہے۔ 52 میں سے محض ایک ریاست، بیچ میں دشمن نہیں، دوست ملک ہے، تیسری مثال آذربائیجان کی ہے جس کا ایک حصہ نحنی چیوان اس سے ہٹ کر ہے، بیچ میں دشمن ملک آرمینیا ہے لیکن وہ ایرانی سرزمین کے ذریعے اس سے رابطے میں ہے۔ چوتھی مثال سلطنت اومان ہے جس کا چند میل کا ایک ٹکڑا اس سے الگ ہے، اگلے میں متحدہ عرب امارات آ جاتا ہے لیکن بیچ کا یہ فاصلہ بھی چالیس پچاس میل سے زیادہ نہیں۔ پانچویں اور انوکھی سی مثال روس کی ہے جس کا ایک حصہ لینن گراڈ روس سے الگ ہے اور بیچ میں لتھوانیا آ جاتا ہے۔ یہ اتنا چھوٹا سا علاقہ ہے کہ روس کے مجموعی رقبے کے ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں۔ البتہ ہے بالٹک۔ اسی کے ذریعے یہ روس سے ملا ہوا ہے۔ چھٹی مثال گھڑی دو گھڑی کی مصنوعی ریاست "متحدہ عرب جمہوریہ" کی دی جا سکتی ہے۔ شام اور مصر دو الگ الگ ملک ہیں، صدر جمال ناصر کے دور میں دونوں نے مل کر ایک وفاق بنا لیا۔ بیچ میں اسرائیل اور اردن کی سرزمین آتی تھی۔ لیکن چند ہی برس میں شام اس وفاق سے الگ ہو گیا۔ مزے کی بات یہ کہ اس کے بعدبھی ایک عرصے تک مصر کا نام سیاسی منظر سے غائب رہا، وہ خود کو متحدہ عرب جمہوریہ ہی کہلاتا رہا۔ جب تک یہ وفاق قائم رہا، محض علامتی رہا، عملاً شام اور مصر دو الگ الگ ملک ہی رہے۔ ان مثالوں میں وہ ملک شامل نہیں کئے جا سکتے جن کے زیرقبضہ جزیرے ساحلوں سے ہزاروں یا سینکڑوں میل دور ہیں چاہے، وہ ریاست کے طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے بھارت کے ساحلوں سے سینکڑوں میل دور دو ریاستیں انڈیمان اور لکشا دیپ کے جزیروں پر مشتمل موجود ہیں یا برطانیہ نے ہزاروں میل دور فاکلینڈ کے جزیوں کو مقبوضہ علاقہ بنا رکھا ہے۔ ٭٭٭٭٭پاکستان کا یہ منفرد نقشہ دسمبر 1971ء میں ختم ہوگیا۔ مغربی پاکستان پر بھٹو صاحب کی حکومت آ گئی جس نے اسے نیا پاکستان کا نام دیا۔ کچھ عرصے بعد یہ ادھورا پاکستان ہی مکمل قرار دے دیا گیا۔ 71ء میں جب پاکستان ٹوٹا تو اخبارات کے تین بیانیے تھے، جنگ، مساوات (جو تب ایک بڑا اخبار تھا) اور سرکاری اخبارات کا بیانیہ یہ تھا کہ غدار مجیب نے بھارت سے مل کر ملک توڑ دیا، یحییٰ خان معصوم ہے۔ اسلام پسند اخبارات، جسارت، زندگی وغیرہ کا یہ کہ غدار مجیب اور غدار بھٹو نے مل کر ملک توڑ دیا، یحییٰ خان معصوم ہے۔ بائیں بازو کے اخبارات و رسائل مثلاً آزاد، لیل و نہار اور الفتح وغیرہ کا یہ کہ ملک مجیب نے توڑا نہ بھٹو نے، یہ یحییٰ خان نے توڑا اور یحییٰ خان معصوم نہیں تھا۔ مجھے جو بات حقیقت لگی وہ اس تیسرے بیانئے سے قریب تھی، اس فرق کے ساتھ کہ بھٹو نے یحییٰ کی اس غداری میں سہولت کاری کی تھی اور صرف بھٹو نے نہیں، نیپ، جے یو آئی، جے یو پی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو چھوڑ کر مغربی پاکستان کی ساری جماعتیں بھی وطن شکنی کے اس عمل میں سہولت کار تھیں۔ کیا مسلم لیگ، کیا جماعت اسلامی، کیا نظام اسلام پارٹی، کیا جمہوری پارٹی اور کیا جے یو آئی تھانوی گروپ۔ بعد میں ان تمام سہولت کار جماعتوں نے یحییٰ خان سے معصومیت کا سرٹیفکیٹ بھی واپس لے لیا۔ بعدازاں یہ سرٹیفکیٹ ضیاء الحق مشرف وغیرہ کو منتقل ہوتا رہا۔ آئین اور رواج دونوں کے تحت پاکستان کے اس ادھورے نقشے کو پورا قرار دے دیا گیا ہے اور پورا مان لیا گیا ہے۔ اس دوران نظریہ پاکستان کی تشریح بدل دی گئی۔ ابتدا نظریہ پاکستان یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو معاشی اور سماجی حقوق دیئے جائیں گے، اب یہ ہے کہ یہ حقوق کسی صورت نہیں دیئے جائیں گے۔ ایک بار پھر ایسا لگ رہا ہے کہ بعض طاقتوں کی آنکھ میں یہ ادھورا نقشہ بھی کھٹک رہا ہے اور وہ پھر سے "درستگی" کا عمل دہرانا چاہتی ہیں۔