Adhooray Mission Ki Hatmi Takmeel
Abdullah Tariq Sohail74
وزیر اعظم خوبیوں کا معدن ہیں، اس سے تو ایک دنیا واقف ہے بلکہ واقف کرا دی گئی ہے لیکن بہت سی خوبیاں پھر بھی اوجھل رہ گئیں۔ وہ تو خدا کا کرم ہے کہ ہماری رہنمائی کے لیے اس نے متعدد روحانی تجزیہ نگار مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ کمی بھی پوری ہو رہی ہے۔ پچھلے آٹھ دس دنوں میں ان روحانیت کاروں نے ایسے ایسے محاسن دریافت فرمائے کہ خود وزیر اعظم کو بھی انہی کی تحریریں پڑھ کر پتہ چلا کہ ان میں تو یہ خوبیاں بھی ہیں۔ بعض قصائد تو ایسے لاجواب تھے کہ بس خلیفہ راشد پنجم کے الفاظ رکھنے کی کسر رہ گئی ورنہ باقی پوری تصویر تو ہو بہو وہی تھی۔ کسر شاید اس لیے رہ گئی کہ یہ خطاب دینے کے لیے موزوں روایات ابھی نہیں مل سکیں (براہ کرم خیال رکھیے، یہ موزوں لکھا ہے اسے غلطی سے موضوع نہ پڑھ لیا جائے) خیر یہ کوئی بات نہیں حماد کی باب الفتن میں کوئی موزوں روایت نہیں مل سکی تو بات ختم نہیں ہو جاتی۔ علی بن سلطان کی موضوعات کبیر کی ٹٹولیات کر لیجیے۔ بہت ہی وافر ذخیرہ روایات کا ہے اور خوب مستند بھی۔ کسی بھی صورت کتاب الفتن سے کم نہیں۔ ٭٭٭٭٭جب تک ہمارے روحانیت کار موزوں روایات کی کھوج فرمائیں تب تک ہمیں وزیر اعظم کی سادگی اور کفایت شعاری کے صدقے جانے کی ذمہ داری نبھاتے رہنا چاہیے۔ بن گالا سے ہر صبح وزیر اعظم ہائوس اڑن کھٹولے سے آنا، شام کو پھر اسی اڑن کھٹولے سے واپس آنا سچ میں الف لیلوی دور کی سادگی کے قصے تازہ ہو گئے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہائوس میں رہائش فرمانا پسند نہیں فرمایا کہ کفایت شعاری کے خلاف ہے تاہم دفتر وہیں جمایا ہے جہاں شاہ خرچیوں کے امام نواز شریف جمایا کرتے تھے۔ پروٹوکول سب کے سب وہی ہیں البتہ ان میں سادگی کی آمیزش ایسے کر دی گئی ہے جیسے میدے میں سندور۔ گاڑیاں دو ہی رکھی ہیں۔ دراصل سادگی میں روایت کا سندور ملا رہے تو برکت کے ساتھ ساتھ خیریت بھی رہتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ایک معترض اخبار نویس نے لکھا ہے کہ سب سے زیادہ کھرب پتی ارکان اسمبلی خود وزیر اعظم کی جماعت میں ہیں۔ یہی نہیں اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجرمانہ مقدموں کے ریکارڈ والے ارکان اسمبلی کی سب سے زیادہ گنتی بھی انہی کی پارٹی میں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک تو یہ ماضی کی بات ہے"فتح مبین " کے بعد (یہ الفاظ خود تحریک انصاف کے ایک روحانیت کار کے ہیں ) ماضی کی سب خطائوں پر مٹی ڈالی جا چکی اب یہ سب ایسے ہی صالح اور فارغ عن الحظا ہو چکے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لینے والا بچہ۔ پھر بھی کچھ ذرا سی میل دھول رہ گئی ہو گی تو وہ حکومت کی برکت سے دور ہو جائے گی اور زمانہ دیکھے گا کہ بنی گالہ سے ایک عورت سونا اچھالتی وانا تک جائے گی اور کوئی اسے دیکھنے والا نہ ہو گا اور کیا عجیب، وزیر اعظم کشمیر کے بعد دلی آگرہ اور الہ آباد تک فتح کے پھریرے لہراتے چلے جائیں پھر لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دمشق جا پہنچیں۔ ٭٭٭٭٭کچھ اخبارات نے خبر دی ہے اور ایک اخبار نے تصویر بھی کہ وزیر اطلاعات کے گلے میں ڈالروں کے ہار ڈالے گئے ہیں۔ ھاروں کا حجم اور پھیلائو اتنا زیادہ ہے کہ وزیر موصوف کے جثہ مبارک کا پھیلائو اس میں چھپ گیا ہے۔ بہت اچھی تصویر ہے۔ ایک قاری نے البتہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ ڈالر اسی جہاز سے لئے گئے ہیں جو دو سو ارب ڈالروں سے لدا ہوا آیا ہے؟ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ جہاز اگرچہ خلافت کے پہلے ہی دن آ جانا چاہیے تھا لیکن بوجوہ کچھ تاخیر ہو گئی۔ حتمی تاریخ کے لیے مراد سعید سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭شیخ رشید نے وزارت ریلوے سنبھالنے کے بعد انقلابی اعلانات فرمائے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ جناب ضیاء الحق مرحوم شہید کا مشن اس بار تو پورا ہو کر ہی رہے گا۔ شیخ جی کے اعلانات میں ریل کی پٹڑی کو کرائے پر دینے، کرایوں میں 20فیصد اضافہ، ریلوے اراضی پر پلازے اور ہوٹل تعمیر کرنا وغیرہ قابل ستائش اقدامات شامل ہیں جن کے یقینی نتائج برآمد ہوں گے۔ مثلاً کرائے مہنگے ہوں گے تو ریلوے مسافروں کی تعداد کم ہو گی۔ بہت سے لوگ بسوں میں جائیں گے، یوں ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ ہو گا اور کئی ٹرینیں گھاٹے میں چلی جائیں گی جنہیں بعدازاں سفید ہاتھی قرار دے کر بند کر دیا جائے گا۔ ریلوے کو اس کی اراضی سے محروم کرنا اپنی جگہ "دوررس" نتائج کا حامل ہے۔ یہ کام اور نتائج دونوں ہی اس زمرے میں آتے ہیں جنہیں "باریک" کہا جاتا ہے۔ بہرحال محکمہ سکڑتا جائے گا اور ضیاء الحق کا مشن پورا ہو جائے گا۔ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں بہت سے کام ترجیحی بنیادوں پر ہوئے۔ مثلاً بھٹو کی پھانسی اس کے علاوہ جو ترجیحی فہرست بنتی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ 1۔ منشیات بالخصوص ہیروئن کو ہر دہلیز تک پہنچانا(بلکہ دہلیز کے اندر) کوکین تو بہت بعد میں آئی۔ 2۔ ریلوے کے خاتمے کی شروعات۔ 3۔ سٹیل ملزکو تباہ کرنے کے لیے باریک منصوبے کا آغاز۔ ریلوے 1947ء میں جیسے ملی تھی۔ 1977ء تک ویسی ہی رہی۔ کوئی کمی ہوئی نہ بیشی۔ بھارت میں البتہ کئی گنابیشی ہوئی۔ ضیاء الحق نے پہلے ریلوے کی مال گاڑیاں بند کیں، پھر کچھ برانچ لائنوں کے ٹریک اکھاڑے، مسافر ٹرینوں کے اوقات بدل کر ٹرانسپورٹ مافیا کی فلاح و بہبود کا ڈول ڈالا گیا۔ ان کے بعد بے نظیر آئیں پھر نواز شریف جنہوں نے اعلان کیا کہ وہ ضیاء الحق کا مشن پورا کریں گے چنانچہ انہوں نے مزید برانچ لائنیں بند کیں یعنی دعویٰ ہی نہیں عمل بھی کیا۔ بے نظیر، نواز کی دو دو ادھوری باریاں پوری ہوئیں اور پرویز مشرف آئے۔ انہوں نے تباہی کا ملٹی ڈائمینشنل چکر چلایا اور ریلوے کو خاص طور سے اس چکر میں شامل کیا ان کے دو خلیفے بالترتیب جنرل قاضی اور شیخ رشید تھے جنہوں نے سندھ کے بیشتر، بلوچستان اور سرحد (اب پختونخوا) کی تمام برانچ ریلوے لائنیں بند کر دیں، پنجاب کی بھی کئی برانچ لائنیں اکھاڑ دی گئیں۔ اراضی کو بندروں میں بانٹا اور ناچ گانے کے کلب بنائے۔ ریلوے کماحقہ، کھٹارا سروس بن گئی۔ مال گاڑیوں کا تو بس نام ہی رہ گیا۔ مسافر گاڑیاں آدھی رہ گئیں، کسی ٹرین کے آنے کا کوئی مقررہ وقت نہ رہا۔ موت اور گاہک کی طرح ٹرین کے لیے بھی مشہور ہو گیا کہ آئے تو ابھی آ جائے نہ آئے تو کل پر ٹل جائے۔ مشن قریب الاختتام ہی تھا کہ مشرف صاحب کک آئوٹ ہو گئے۔ مشن ایک بار پھر ادھورا رہ گیا۔ جنرل قاضی اور شیخ جی کے ادوار میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی تفصیل ریلوے میوزیم میں سجانا لازمی ہے۔ چین سے بارہ بارہ کروڑ قیمت کے درجنوں ریلوے انجن 42، 42کروڑ میں خریدے گئے۔ پاکستان پہنچے تو پتہ چلا وہ ہماری پٹڑیوں پر چل ہی نہیں سکتے۔ لائن کے گیج کا فرق تھا، سو تب سے اب تک کراچی میں پڑے ہیں۔ زرداری نواز حکومتوں کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ ان کی نمائش کرتی اور ان پر ٹکٹ لگا دیتی۔ اشتہار یوں ہوتا، آئیے مہربان، بارہ بارہ کروڑ کے وہ انجن دیکھئے جو ہم نے 42، 42کروڑ میں خریدے اور جو پٹڑی پر چلنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یقین مانیے اتنے لوگ دیکھنے آتے اتنے ٹکٹ لگتے کہ بجٹ خسارہ کم ہو جاتا۔ پاکستان ہی نہیں باہر سے بھی ٹورسٹ حضرات اسے ٹورازم سپاٹ، سمجھ کر جوق در جوق آتے۔ اس دوران سعد رفیق ریلوے کے وزیر بنے اور ادھورے مشن کو روک بیک کرنا شروع کر دیا یعنی تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے کی کوشش کی۔ خدا کا شکر ہے ان سے نجات ملی۔ ادھرے مشن کی حتمی تکمیل کے لیے شیخ جی پھر واپس تشریف لے آئے۔ ان کی پشت پر ضیاء الحق کی روح، مشرف کا ہاتھ اور دوسرے دست ہائے غیب ہیں، ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔