Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aik Wada Poora Ker Rahe Hain

Aik Wada Poora Ker Rahe Hain

شریف خاندان کے لیے غم کی گھڑی اور آزمائش کی گھڑیاں ہیں۔ گھڑی بیت جائے گی، آزمائش ٹلتے ٹلتے کچھ دیر لگے گی۔ جرم نہایت سنگین اور ناقابل معافی ہے، نرمی اور رعایت کے سارے دروازے مقفل ہیں۔ بہرحال یہ گھڑیاں اتنی طویل قطعی نہیں ہوں گی جتنی کہ صف مہرباناں نے خیال کر رکھا ہے۔ اگلے برس چشم فلک بہت سے مناظر کو پلکیں جھپک جھپک کر دیکھے گی۔ کلثوم نواز دنیا سے چلی گئیں اور تاریخ کا حصہ بن گئیں لیکن مزاحمت کا ایک باب بھی اپنے نام کر گئیں۔ انوکھی بات یہ ہے کہ "سٹیٹس کو" کے خلاف جن چار بڑی خواتین نے جدوجہد کی، ان میں سے دو کا تعلق شریف خاندان سے ہے۔ پہلی خاتون محترمہ فاطمہ جناح ؒ تھیں۔ انہوں نے پاکستان کے تین دریا بھارت کو بیچنے والے اور ملک کے دو بڑے رقبے چین اور ایران کی"بلا معاوضہ" نذر کرنے والے آمر کو چیلنج کیا۔ جب وہ صدارتی الیکشن میں کھڑی ہوئیں تو ہزار سال سے آمریت پر ایمان رکھنے والے بعض علماء نے ان کے "عورت" ہونے پر اعتراض کیا۔ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے تاریخی جواب دیا۔ فرمایا، مادر ملت میں کوئی خرابی نہیں سوائے اس کے کہ وہ خاتون ہیں اور ایوب خان میں کوئی خوبی نہیں سوائے اس کے کہ وہ مرد ہیں۔ ایوب خان نے مادر ملت کو شہید کرا دیا۔ ان کا مزار آج بھی پاکستان کی محبوب نشانی ہے، ہزاروں لاکھوں لوگ سال بھر ان کے مزار پر جاتے ہیں، ہر سال ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ وطن فروش کی قبر کہاں ہے؟ کسی کو معلوم ہے نہ کوئی معلوم کرنا چاہتا ہے۔ دوسری خاتون بے نظیر تھیں۔ بلا شبہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے "سٹیٹس کو" سے کئی سمجھوتے کئے لیکن وہ اپنی بنیادی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بنیادی جدوجہد یعنی سٹیٹس کو سے عوام کے غصب کردہ حقوق کی واپسی۔ میثاق جمہوریت کے جرم میں انہیں پرویز مشرف نے شہید کرا دیا۔ ان کی قبر دور دراز علاقے میں ہے پھر بھی لاکھوں لوگ سال بھر وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف اپنے درد کمر سمیت دبئی کے عشرت کدوں میں رات بھر ناچا کرتا ہے۔ وقت آنے پر دیکھنے والے دیکھ لیں گے۔ نے چراغے نے گلے۔ تیسری خاتون کلثوم نواز تھیں۔ انہوں نے سٹیٹس کو کے خلاف ایسے ماحول میں جنگ لڑی جب ملک کی تمام سیاسی قوتیں اس کے سامنے سپر انداز ہو چکی تھیں۔ مشرف ان سے خائف تھا۔ ملک میں ان کا قیام چاہے جیل ہی میں کیوں نہ ہو، برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ چوتھی خاتون انہی کلثوم نواز کی صاحبزادی مریم ہیں اور "سٹیٹس کو"ان سے نواز شریف سے بھی بڑھ کر خائف ہے۔ انہیں سترہ سال نااہلی کی سزا سنائی گئی ہے۔ جو "دور اندیش حفظ ماتقدم" کی ملک میں پہلی مثال ہے۔ اس وقت "سٹیٹس کو" ملک کی ستر سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ مضبوطی اور طاقت کے مقام پر فائز ہو چکا ہے۔ آزادی صحافت بھولی بسری داستان بن چکی ہے، اپوزیشن منتشر ہے۔ سنا ہے خاں صاحب کو اگلے برس"صدارتی نظام" کی راہ سمجھائی جا چکی ہے لیکن اگلے سال کیا ہو گا، کون جانتا ہے۔ افتخار چودھری کی عدالت مشرف کو آئین میں ترامیم کی اجازت دے چکی تھی عدلیہ بحالی تحریک بے نتیجہ رہی تھی، کوئی رکاوٹ مشرف کے سامنے نہیں تھی۔ بجا طور پر اس نے پورے اعتماد سے کہا2007ء کا پل آنےدو عبور کر لوں گا۔ مطلب وردی اتارنے یا نہ اتارنے کی بحث سے تھا۔ عباس اطہر مرحوم لبرل ہونے کے باوجود "ولی صفت" تھے۔ انہوں نے ایک تاریخی کالم لکھا جس کا عنوان تھا، تیرا کیا ہو گا کالیا۔ اس کا یہ فقرہ الہامی ثابت ہوا، مشرف صاحب آپ 2007ء کا پل عبور کرنے کی بات کرتے ہیں، کیا آپ نے 2007ء دیکھ لیا ہے؟ یہ وہی سال تھا جس میں مشرف ایک بار پھر صدر منتخب ہوئے اور کچھ ہی ہفتوں بعد ایوان صدر سے کک آئوٹ کر دیے گئے۔ ٭٭٭٭٭بادشاہ سلامت نے باقی سارے وعدے وعید تو رکھے بغیچے میں لیکن ایک وعدہ یاد رکھا اور اب اس پر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا، میں ان کو رلائوں گا۔ ملاحظہ فرمائیے، جتنی چیزیں تین ہفتوں میں مہنگی کی گئیں اتنی کسی حکومت نے پورے پانچ سال میں نہیں کیں۔ لیکن جو بھی مہنگائی ہوئی، وہ تو محض آئس برگ کی "ٹپ" ہے منی بجٹ کی خبریں آ رہی ہیں اور سنا ہے کہ اس میں سو اشیا کی قیمتیں بڑھا دی جائیں گی۔ یوں کہ "پراپرٹی ٹیکس" بحال کیا جا رہا ہے۔ عوام پھر بھی تسلی رکھیں کہ کچھ اقدامات ان کو ریلیف دینے کے بھی اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً گورنر ہائوس ان کے لیے کھول دیئے گئے ہیں نیز وزیر اعظم ہائوس کی چھ بھینسیں بھی فروخت کی جا رہی ہیں۔ ٹینڈر طلب کئے جا رہے ہیں، امید ہے فی الحال اتنا ریلیف کافی ہو گا اور وہ آسانی سے "منی بجٹ" کی "تکلیف" اس ریلیف کے سہارے برداشت کر لیں گے۔ بادشاہ سلامت کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہوئی کہ عوام قربانیاں دیں۔ اب طے ہوا کہ قربانیاں صرف عوام ہی دیں گے۔ منی بجٹ کے ذریعے 400ارب روپے کے ٹیکس لگیں گے۔ ٭٭٭٭٭چیئرمین نیب نے فرمایا کہ کرپٹ عناصر دنیا کے کسی بھی گوشے میں چلے جائیں، پیچھا کریں گے۔ پوچھنا یہ ہے کہ "دبئی" بھی "گوشے" میں شمار ہوتا ہے کہ نہیں۔؟ چیئرمین نیب اپنے بیانات اور خطابات کی وجہ سے عموماً زیر بحث رہتے ہیں۔ مطلب ان کا کچھ بھی نہ ہو لیکن بہرحال بولتے رہنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی ٹرائیکا کا چوتھا رکن بننا چاہتے ہیں یعنی تین کا چوتھا۔ عرض ہے کہ تین کا پہلا بھی ہوتا ہے، تین کا دوسرا بھی ہوتا ہے اور تین کا تیسرا بھی ہوتا ہے لیکن تین کا چوتھا کبھی ہوا ہے نہ ہو گا۔ انہیں شریف خاندان کی گردن پر پائوں رکھنے کی جو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اسی پر صبر و شکر کے ساتھ قانع رہیں تو تبدیلی کے سفر کی ہمواری کے لیے اچھا ہو گا۔ یاد آیا۔ بقول ان کے، نواز شریف نے جو اربوں ڈالر بھارت بھجوائے تھے، ان کی واپسی کے لیے لائحہ عمل ابھی بنایا ہے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭12ستمبر کے اخبار کے صفحہ آخر پر ایک سرخی کے الفاظ ہیں :"بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ، کاروبار ٹھپ، زندگی عذاب بن گئی" کیا ہم واپس 2012ء اور 2013ء کے دور میں چلے گئے؟ کون کہتا ہے کہ ماضی کبھی پلٹ کر نہیں آتا؟ ٭٭٭٭٭اپوزیشن کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سی پیک پر "یوٹرن" خطرناک ہو گا۔ افسوس کہ ان کی بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ یو ٹرن تقریباً ہو چکا ہے، ابھی تک "فائدہ ناک" ہی نظر آ رہا ہے، خطرناکی کبھی آنے والے وقت میں ہو تو ہو ابھی تو چین ہی چین ہے۔ ان کے ایک اور "ناقابل گفتنی" مطالبے سے یاد آیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اپنی مسند پر سراجمان تھے اور پورا ملک چلا اور ہلا رہے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ملک کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ مقبول ترین شخصیت نے اپنی جماعت بنائی تو پتہ چلا، اپنا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔