Bara Crore Sikh?
Abdullah Tariq Sohail93
کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب کے ساتھ برصغیر کی تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ مڑ گئی۔ تقریب کے دولہا سدھو مہاراج تھے۔ یہ دولہائے خصوصی ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خاں نے کہا خوب کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ اگر فرانس اور جرمنی صدیوں کی دشمنی کو بھلا کر "یونین" بنا سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت ایسی یونین کیوں نہیں بنا سکتے۔ بالکل بنا سکتے ہیں اور شاید ستر سال کے تجربات کے بعد جنگوں اور کشیدگی کے صحرائوں کا سفر اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور امن و بھائی چارے کا نخلستان دور سے جھلک دکھانے لگا ہے۔ کم از کم خاں صاحب کے خطاب سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کا بھلا ہونے والا ہے، اس سے بھلی بات اور کیا ہو گی۔ رہا کشمیر کا مسئلہ تو سیانے اٹھارہ برس قبل ہی بتا گئے تھے کہ یہ مسئلہ اب حل ہوا، مزید حل ہونے کی توقع نہ رکھی جائے۔ اب دیکھئے "یونین" کی راہداری کب کھلتی ہے۔ ایک منی راہداری کی تجویز تو دولہائے خصوصی دو روز پہلے دے چکے۔ ایک اخبار کے فورم میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دونوں پنجاب اکٹھے کرنے کی تجویز دے کر بہتوں کا دل خوش کر دیا۔ فرمایا "دونوں پنجاب جڑ جائیں تو برسوں کی ترقی مہینوں میں ہو گی۔ دونوں پنجاب اکٹھے تھے تو گورے بھی ڈرتے تھے۔ دونوں پنجاب اکٹھے ہو جائیں گے تو وسطی ایشیا سے یورپ تک تجارت کے راستے کھل جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭دونوں پنجاب اکٹھے کرنے کا ایک رائونڈ، ماضی دور حکومت میں بھی ہوا تھا۔ شاید اب سلسلہ وہیں سے جڑے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ گویا دو یونینوں کا راستہ ہموار ہونے کو ہے۔ ایک دونوں پنجاب کا "جڑائو" دوسری پاک بھارت یونین۔ رستے کی ہمواری تو صاف نظر آ گئی۔ کرتار پور راہدای سے آمد(ورفت شاید) ویزا فری ہوگی۔ وزیر اعظم نے سرحدیں کھولنے اور تجارت کرنے کی بات بھی کی۔ سرحدوں سے مراد محض پاک بھارت سرحد نہیں، پاک افغان سرحد بھی ہو گی۔ سرحدیں کھلنے کی ابتدا محدود راہداری میں ویزا فری ہونے سے ہو چکی۔ کرم فرمائوں نے چاہا تو دائرہ وسعت پذیر ہو گا اور حسب اطمینان حدوں تک پھیلے گا۔ پاک بھارت سرحد کھلنے سے ایک اضافی فائدہ بھی ہو گا۔ نیب کی ٹیم ویزا فری وزٹ پر جائے گی اور بھارت میں مودی کے یار کے کارخانوں اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری کا سراغ لگائے گی۔ اور یوں اربوں کھربوں سوئٹزر لینڈ سے نہ سہی۔ بھارت سے ضرور مل جائیں گے۔ جس کے بعد ادائیگیوں کا توازن بھی بہتر ہو جائے گا۔ کیا پتہ، سرحدیں کھلنے سے مودی کے یار کی کلبھوشن یادیو سے کاروباری شراکت داری کا اَتا پتا بھی مل جائے۔ ارے، کلبھوشن یادو کو نہیں جانتے؟ خیر کوئی بات نہیں، عرصے سے یہ نام کوئی نہیں لیتا، آپ بھی بھول گئے تو حیرت کیسی؟ ٭٭٭٭٭سدھو مہاراج نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ دنیا بھر میں بارہ کروڑ سکھ ہیں۔ ایک روز پہلے ایک اخبار نے بھی یہ تعداد بارہ کروڑ بتائی۔ اسے کرتار سنگھ راہداری کی برکت سمجھئے کہ سکھوں کی تعداد راتوں رات پونے تین کروڑ سے بڑھ کر بارہ کروڑ ہو گئی یعنی چار سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ۔ کرامات حضور کرامات۔ 20نومبر 2018ء تک سکھوں کی عالمی مردم شماری یہی تھی یعنی دو کروڑ 70لاکھ۔ ان کا 90فیصد حصہ بھارت میں ہے، باقی کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ کینیڈا میں ہیں یعنی کوئی سات آٹھ لاکھ پھر برطانیہ میں یعنی 5لاکھ، اس کے بعد امریکہ میں یعنی اڑھائی لاکھ اس کے بعد آسٹریلیا ہے جہاں سوا لاکھ سکھ آباد ہیں۔ راتوں رات سکھوں کی مردم شماری اتنی زیادہ بڑھ جانے پر مبارکباد کسے دی جائے؟ ٭٭٭٭٭مردم شماری بڑھنے کی اس برکت کا سایہ شاید جنرل امجد شعیب پر بھی پڑ گیا۔ عارف نظامی کے پروگرام میں انہوں نے فرمایا کہ کینیڈا میں کروڑوں سکھ آباد ہیں۔ کینیڈا کی کل آبادی تین ساڑھے تین کروڑ ہے۔ ان میں سے "کروڑوں " سکھ ہیں تو پھر گورے اور دوسری قوتوں کے لوگ تو بس چند ہزار ہی ہوں گے۔ ممکن ہے جنرل صاحب نے سکھوں کی فرد واحد کو "فوجاں " کہنے کی رعایت سے لاکھوں کو کروڑوں میں بدل دیا ہو۔ اکیلا سکھ کہیں جا رہا ہو تو دوسرے سکھ اسے پوچھا کرتے ہیں کہ "بلے بھئی بلے، ایہہ فوجاں کتھے جا رہیا نیں (واہ بھئی واہ، یہ فوجیں کدھر جا رہی ہیں ) اس اصول کے تحت ایک سکھ اگر کم از کم سو کے برابر لیا جائے تو ٹھیک ہے، کینیڈا میں 8کروڑ سکھ آباد ہیں۔ ٭٭٭٭٭طویل عرصے کے بعد امن کے پھریرے افق پر لہرا رہے ہیں اور امن کو باقاعدہ ریاستی پالیسی کے طور پر جاری فرما دیا گیا ہے وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بطور خاص ایک ہی پیج کی بات دہرائی تو اب ان احباب کی رائے کا انتظار ہے جو پچھلے پانچ برس سے غزوہ ہند کی روایات سنا سنا کر "مودی کے یار کا ناطقہ بند کئے ہوئے تھے! شاید اب حق و باطل کی جنگ لڑنے والے ان میڈیائی غازیوں کی فوج ظفر موج تلواریں نیام میں کر لے۔ ٭٭٭٭٭گزشتہ روز اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کیمپ لگا۔ بہت درد ناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ چند روز قبل ایسا ہی ایک کیمپ کوئٹہ میں لگا۔ اس میں بچوں اور بوڑھی عورتوں کی گریہ و زاری پتھر دل کو بھی موم کرتی تھی۔ کسی اخبار میں کوئی خبر نہیں آئی لیکن سوشل میڈیا نے دنیا بھر کو باخبر رکھا۔ کچھ ہفتے پہلے ایک اخبار میں ساڑھے تین سطر کی خبر تھی کہ لاپتہ افراد کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے۔ خصوصاً بلوچستان سے تو بہت زیادہ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے انتخابی مہم میں یہ مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا اب معلوم ہوا کہ اس سے بھی یوٹرن لے لیا۔