China Ne Naa Nahi Ki Lekin
Abdullah Tariq Sohail81
خبر ہے کہ چین جانے والی ٹیم واپس آ گئی ہے اور اس کے دورے میں اقتصادی پیکیج کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ خبر کے مطابق معاملات کی جزئیات طے کرنے میں کچھ مسائل ہیں۔ معاملات کی جزئیات کہاں سے آ گئیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ہو سکتا ہے بعض قارئین اس خبر کا ترجمہ یوں کریں کہ چین نے مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن یہ ترجمہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ ٹھیک بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان کو رقم دینے سے انکار نہیں کیا۔ انکار الٹا ہماری طرف سے ہے۔ چین کو سی پیک کے حوالے سے، ہمارے حکمرانوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ کچھ خدشات اور ہماری طرف سے انہیں دور نہیں کیا جا رہا ہے۔ دور کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کچھ نہ کچھ نیت کا مسئلہ ہے اور کچھ ایسا ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ چین تو ماضی کی ساری باتیں بھولنے کے لیے تیار ہے۔ 2014ء کے دھرنے سے لے کر چین کے خلاف ساری بیان بازی ریکارڈ پر ہے لیکن چین اسے آف دی ریکارڈ رکھنے پر تیار ہے۔ چین والے البتہ اس بات سے لطف اندوز ہوئے جو ہمارے بعض وزیروں نے دورہ چین سے واپسی پر اپنے اعتماد کے اخبار نویسوں کو بتائی اور جو انہوں نے شائع بھی کر دی اور نشر بھی، یہ کہ چین نے خاموشی سے کچھ ارب ڈالر ہمارے کھاتوں میں رکھوا دیے ہیں اور ہم سے کہا ہے کہ خبردار کسی کو بتانا مت! کھاتوں میں رقم آئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، یہ بھی چمتکار تھا۔ کچھ ایجنڈا بھی ہے سی پیک پر جو رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایجنڈے کا مطلب سمجھانے کی ضرورت نہیں، بہرحال، دیکھیے کیا گزرتی ہے سی پیک پر جزئیات طے ہوتے ہوتے…٭٭٭٭٭پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں آ کر جواب دینے کی زحمت وزیر اعظم کرتے ہیں نہ وزرائے کرام!عرض ہے کہ وزیر اعظم نے تو پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ وہ اسمبلی آئیں گے نہ جواب دیں گے۔ وزیر اعظم کے اسلوب سے ناواقفیت کی وجہ سے بلاول نے یہ اعتراض کیا۔ اسلوب کیا ہے؟ سادہ سا فارمولا ہے وزیر اعظم جب فرمائیں کہ میں یہ کروں گا تو اس میں "نہیں " کا اضافہ کر دیں جب وہ فرمائیں کہ میں یہ نہیں کروں گا تو نہیں کا لفظ حذف کر دیں۔ اصل مافی الضمیر سامنے آ جائے گا۔ تو ملاحظہ فرمائیے، جب وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں خود اسمبلی میں آ کر سوالوں کے جواب دیا کروں گا تو اس کا مطلب یہ تھا، نہ اسمبلی آئوں گا نہ جواب دوں گا۔ اسی فارمولے کو آپ دوسرے ملفوظات پر لاگو کریں۔ ٹھیک معنی سامنے آتے جائیں گے۔ دیکھیے، میں وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہوں گا۔ مطلب وزیر اعظم ہائوس میں ہی رہوں گا۔ وزیر اعظم اور گورنر ہائوسز کو گرا دوں گا۔ مطلب نہیں گرائوں گا۔ پروٹوکول نہیں لوں گا۔ مطلب لوں گا۔ سادگی اختیار کروں گا۔ مطلب سادگی کے نام پر سارے ارمان نکالوں گا۔ جہاز کی لگژری کلاس میں نہیں جائوں گا۔ مطلب پورا طیارہ لے کر جائوں گا۔ لوٹوں کو قبول نہیں کروں گا۔ مطلب انہیں گلے لگائوں گا آغوش میں لوں گا۔ غیر ملکی قرضے نہیں لوں گا، نئے ٹیکس نہیں لگائوں گا۔ مطلب پہلے سے زیادہ لگائوں گا۔ الغرض۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭نیب کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ یا تو سب کو پکڑے یا سب کو چھوڑ دے۔ نیب سیانا ادارہ ہے، راضی برضا ہے اشارہ ابرو کی عظمت اور وقعت کو سمجھتا ہے۔ حساب سود و زیاں خوب رکھتا ہے۔ لیکن براہ کرم اسے عمران خاں کا "بازوئے زنجیر زن" مت قرار دیجئے(زنجیر زنی کے معنی یہاں ہتھکڑی لگانے پر محمول فرمائیے) نیب جو کچھ کرتا ہے اگرچہ حسب مرضی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود"خود مختار" ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ رضائے عمرانی اور رضائے جاودانی مل کر یک جان ہو گئی ہیں اسے ایک پیج پر آنا کہتے ہیں اور یہ کوئی راز نہیں کہ سب ایک پیج پر ہیں۔ سب کی رضا "راضیا مرضیا" ہو گئی ہے۔ اسی میں سب کی بھلائی بھی ہے۔ سب سے مراد حکومت اور نیب ہے۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ حکومت کے وزیر جا جا کر چیئرمین سے کیوں ملتے ہیں اور تصویر میں چیئرمین صاحب اتنے مؤدب کیوں نظر آتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ ملاقاتیں موسمی حالات پر تبادلہ خیال کے لیے ہوتی ہیں اور رہا مؤدب ہونے کا سوال تو پتہ ہی ہو گا کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ ٭٭٭٭٭بجلی کی فیول ایڈجسٹمنٹ 41پیسے فی یونٹ بڑھا دی گئی ہے، یوں تین ماہ کے دوران صرف اسی مد میں بجلی دو روپے یونٹ مہنگی کی جا چکی ہے۔ اس عرصے میں تیل کی عالمی قیمت ایک چوتھائی سے زیادہ کم ہو چکی ہے، پھر یہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، سوائے اس کے کہ حکومت "انصاف" کرنے پر تل گئی ہے؟ دیگر مدوں میں جو نرخ بڑھائے گئے ہیں وہ الگ ہیں اور اب سب سڈی ختم کرنے کی خبر آ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں بجلی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ لوگ جیتے جی مر تو نہیں جائیں گے لیکن زندہ در گور ضرور ہو جائیں گے۔ کیا عجب کچھ لوگ تو سرے سے بجلی کٹوا ہی دیں اور لالٹینوں کے دور میں واپس چلے جائیں۔ عوام پر تو جو بیتے گی، بیتے گی۔ ایک نتیجہ اور بھی نکلے گا۔ صفر برآمدات کی صورت میں۔ پہلے ہی بجلی تیل کی زیادہ قیمتوں اور رنگ برنگے ٹیکسوں کی بدولت ہماری مصنوعات کو عالمی منڈی میں بہت مشکل مقابلے کا سامنا ہے جتنی قیمت بڑھنے کی خبریں آ رہی ہیں، اس کے بعد تو دنیا والے ہماری مصنوعات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی شاید ہی دیکھیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا صفر برآمدات بھی حکومتی ایجنڈے کا نکتہ ہے؟ ٭٭٭٭٭جناب سراج الحق کی فرمائش ہے کہ حکومت اسرائیل والے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ اس سے زیادہ پوزیشن واضح کیا ہو گی جتنی ہو گئی ہے۔ جہاز آ رہے ہیں، دس گھنٹے قیام کے بعد واپس جا رہے ہیں۔ اسمبلی میں تقریریں ہو رہی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ریٹائرڈ معززین جو حکمران جماعت کی "اصل قوت" ہیں، اسرائیل کے فضائل بیان کر رہے ہیں۔ اب اور وضاحت کی ضرورت ہی کہاں رہ گئی ہے۔ پھر بھی آپ کی "تشنگی" دور نہیں ہو رہی تو ایک ملاقات مولانا فضل الرحمن سے کر لیں۔