Chu Mantar
Abdullah Tariq Sohail90
وزیراعظم کے اجتماعی انٹرویوکے قہقہہ بار آفٹر شاکس دوسرے اور اب تیسرے روز بھی جاری ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ انکشاف سامنے آنے کے بعد کہ انہوں نے ڈالر کی قیمت بڑھانے کے فیصلے کی اطلاع انہیں دے دی تھی۔ ان کے آفٹر شاکس میں ایک ضمنی اضافہ ہو گیا ہے۔ جس انٹرویو میں وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ مجھے ڈالر کی قیمت بڑھنے کی اطلاع ٹی وی سے ملی، اس میں اینکر موجود تھے۔ بہرحال لوگ مخمصے میں ہیں کہ ڈالر کی اطلاع کے حوالے سے کس کے بیان پر اعتبار کیا جائے۔ وزیراعظم کے یا وزیر موصوف کے، تو عرض ہے کہ ہمیں تو دونوں صادق و امین لیکن ایک مہا صادق امین ہے تو دوسرا ذرا کم تر درجے کا ہے، لوگوں کی مرضی ہے، میرٹ پرکھ لیں اور پھر جس پر اعتبار کرنا بنتا ہو اس پر اعتبار کر لیں۔ ٭٭٭٭٭معاملہ ضروری نہیں کہ ایڑیاں جوڑ کر جھوٹ بولنے ہی کا ہو، سمجھ بوجھ کے لاپتہ ہونے کا بھی ہو سکتا ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذکر اذکار کی کثرت کی وجہ سے ٹی وی اخبار دیکھنے کا موقع ہی نہ ملا ہو۔ ایک وزیر اعظم سواتی کی جے آئی ٹی کے حوالے سے یہ گمان کیا جا سکتا ہے۔ سواتی کے کارنامے پر بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ کئی دن پہلے آئی اور دن بھر ٹی وی چلتی رہی، اس پر پروگرام بھی چلائے۔ اگلے روز اخبارات نے بھی شہ سرخیاں لگا کر چھاپی۔ لیکن اینکروں کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ انہیں تو کسی جے آئی ٹی کی رپورٹ کا علم ہی نہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس روز جہاں موصوف مصروف رہے، ٹی وی دیکھ ہی نہیں سکے اور اس سے اگلے روز بھی سارا وقت مصروفیت میں گزر گیا۔ اخبارات دیکھنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ ٭٭٭٭٭اینکروں کو وزیراعظم نے بتایا کہ گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ یہ "غلامی" کی یادگار ہیں۔ یہ معرفت کی بات کی۔ گورنر ہائوس غلامی کی یادگار نہیں، اس کی دیواروں ہیں جو بعد میں بنی ہیں بلکہ کئی بار بنی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ دیواریں سابق گورنر خالد مقبول کے دور میں بنائی گئی تھیں۔ ایک بار پہلے گورنر جیلانی نے دیواروں میں ردوبدل کیا تھا۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اس دور کی غلامی کا تذکرہ کیا ہو۔ یہ ہوتا ہے وژن، ایسا ہوتا ہے، لیڈر۔ ویسے غلامی کی یادگاریں اور بھی ہیں مثلاً ریلوے، ایچی سن کالج، کچھ دیگر۔ ریلوے پر تو جہاں پناہ نے ٹھیک بندہ لگا دیا جو خسارے والی ٹرینیں چلا کر اور مسافروں سے سہولتیں واپس لے کر غلامی کی اس یادگار کو قصہ ماضی بنانے کے لئے دن رات سرگرم ہیں۔ کوئی صاحب ایچی سن کالج ڈھانے کو بھی بھیج دیں۔ ٭٭٭٭٭ایک کیس میں پرویز الٰہی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے سرکاری اراضی ہدیہ کی یا نہیں، انہیں یاد نہیں کیونکہ بات تیرہ سال پرانی ہو گئی ہے۔ پرویز الٰہی صاحب کہتے ہیں کہ یاد نہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ نواز شریف سے تیرہ چوکے باون سال پہلے کا حساب مانگنے والوں میں پنجاب کے یہ سب سے بڑے صادق و امین بھی شامل تھے۔ باون سال زیادہ کہ تیرہ؟ اسے کیا کہیئے؟ یہی کہ نو کا پتہ ہے چھ کا نہیں!٭٭٭٭٭ایک وزیر کیانی نام کے ہیں۔ فرمایا کہ سگریٹ اور تمباکو پر "گناہ" ٹیکس لگائیں گے۔ ٹھیک ہی ہے۔ سگریٹ پینے والے ہم لوگ گناہ گار ہی تو ہیں۔ ایک گناہ اور سہی، مطلب ایک ٹیکس اور سہی۔ حضرت یہ فرمائیے، کوکین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ لگے ہاتھوں اس پر بھی ٹیکس لگا دیں۔ ٭٭٭٭٭ایک مزے کی بات تو رہ ہی گئی۔ اینکر نے وزیراعظم سے تشویش کے ساتھ پوچھا، اتنے عرصے سے اتنا کچھ ہو رہا ہے، نواز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ وزیراعظم نے اس کا جواب ایسا دیا کہ ہر سننے والا کہہ اٹھا، یہ ہوتا ہے وژن، ایسا ہوتا ہے لیڈر۔ فرمایا، بدقسمتی سے نواز شریف کے وکیل بہت زبردست ہیں۔ کہئے کیسی کہی۔ یعنی وکیل زبردست ہوں تو کرپشن کے ثبوت چھپ جاتے ہیں، سلیمانی چغہ پہن لیتے ہیں۔ وکیل تو بعد میں آئے، جے آئی ٹی تو ٹھوس ثبوت بہت پہلے ہی ڈھونڈ چکی تھی اور ڈبے بھر کے احتساب عدالت میں لائی تھی۔ یہ وکیل ہیں کہ جادوگر، چھومنتر کیا اور ثبوت ڈبوں سے غائب۔ ٭٭٭٭٭ایک ممتاز عالم دین90سالہ مولانا مفتی یوسف سلطانی چل بسے۔ وہ بیمار تھے۔ بہت درد ناک خبر ہے۔ خدا مغفرت کرے۔