Das Ka Phair
Abdullah Tariq Sohail78
پنجاب میں آزاد امیدوار تحریک انصاف کی طرف آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے عجیب بیان دیا ہے۔ کہا ہے آزاد امیدواروں کا تحریک انصاف کی طرف جانا غیر فطری ہو گا۔ غیر فطری؟ فطرت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ تحریک انصاف کو آغوش میں لے ہوئے ہے اور آزاد امیدواروں سے بڑھ کر فطرت اور حسن فطرت کا قدردان کون ہو سکتاہے اس لیے وہ وہیں جائیں گے جہاں فطرت نے ڈیرے لگا رکھے ہیں فطرت ہی ہر شے کو ڈھالتی اور ہر عمل کا پہیہ چلاتی ہے اور تحریک انصاف تو خیر سے ملکی تاریخ کی وہ شے ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا عتیری رنگین جوانی کی تشکیل میں حسن فطرت کی ہر چیز کام آ گئیاسی حوالے سے مسلم لیگ کے ایک راہنما رانا ثناء اللہ کا بیان بھی آیا ہے۔ فرمایا ہے کہ ہم نے نمبر گیم پوری کر لی ہے لیکن ساتھ دینے والوں کے نام نہیں بتائیں گے کیونکہ ہم انہیں خلائی مخلوق سے بچانا چاہتے ہیں۔ رانا صاحب کے دعوے میں کچھ مبالغہ ہے۔ خیر، اسے چھوڑیے لیکن انہوں نے خلائی مخلوق کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ حسب حال اور مناسب نہیں ہے۔ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ہم اپنا ساتھ دینے والے ارکان اسمبلی کو فطرت بھائی سے چھپانا اور محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فطرت بھائی کی نظر سے کوئی بھی، کچھ بھی اوجھل نہیں۔ بالآخر سب کو فطرت بھائی کے ہاتھ پر ہی لبیک کہنا ہے۔ ٭٭٭٭٭الیکشن کے بعد دو قسم کے بیانات آ رہے ہیں۔ ایک مزے مزے کے دوسرے بہت مزے کے۔ بہت مزے کا بیان دینے والوں میں کراچی کے صاحب ترقی و کمال بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر ارشاد فرمایا کہ کراچی کی چھ قومی سیٹوں پر ہمیں جتوانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن الیکشن سے چند روز پہلے ایک بات میرے منہ سے ایسی نکل گئی کہ وہ ناراض ہو گئے اور ایک بھی سیٹ نہیں دی۔ رہبر ترقی و کمال کا شکوہ اپنی جگہ لیکن جو وجہ انہوں نے بتائی وہ ٹھیک نہیں لگتی۔ جو وعدہ آپ سے پورا نہیں کیا گیا وہ کہیں اور سے بھی پورا نہیں کیا گیا۔ لال قلعے کے فاتح مولانا سے لے کر لبیک والے مولانا تک کسی سے بھی پوچھ لیں۔ چکری کے جیپ والے سے بھی بے شک گواہی لے لیں۔ اصل بات رہبر ترقی و کمال بھائی یہ ہے کہ عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا اور آپ حضرات تو خدا خیر کرے، فنا نہیں ہوئے صرف دریا میں گم ہوئے ہیں۔ دریا کی "تعمیر" میں آپ کا جو حصہ طے ہوا تھا وہ آپ نے ادا کر دیا۔ بس اتنا ہی کام تھا دعوے وعید تو ترغیب و ترہیب کا حصہ تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں دل چھوٹا نہ کریں اگلے الیکشن میں آپ کی پھر ضرورت پڑے گی۔ کیا پتہ کوئی وعدہ وفا بھی ہو جائے گا۔ اللہ بھلا کرے۔ ٭٭٭٭٭جس شام رہبر ترقی و کمال نے یہ بات ٹی وی پربتائی اسی روز کراچی سے امت کا بھلا چاہنے والے اخبار نے اپنی رپورٹ میں بھی یہی بات لکھی اور ساتھ ہی ایک بات اور بھی۔ اخبار نے لکھا کہ رہبر ترقی و کمال سے چھ قومی سیٹوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ایک بھی نہیں دی جبکہ بھائی لوگوں کی قدیمی جماعت سے کہا گیا تھا کہ انہیں آٹھ سیٹیں دی جائیں گی لیکن صرف چار دی گئیں۔ چار سیٹوں سے محرومی پر بھائی لوگوں نے 25کی رات خوب غل مچایا۔ دھرنوں اور مظاہروں کی دھمکی دی لیکن پھر فطرت سے صدا آئی۔ دھرج کرو، ورنہ دوبارہ گنتی کرا کے ان چار سے بھی ہاتھ دھلوا دیں گے۔ چنانچہ بھائی لوگ معاملے کی نزاکت سمجھ گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ وسیع تر قومی مفاد میں جہانگیر ترین کے ساتھ مثبت تعاون پر بھی آمادہ ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ایک نکتے کی بات اور دیکھیے، الجبرا کا فارمولا کس طرح مکمل ہوا تین اجزا الگ الگ تھے، ملے تو فارمولا سمجھ میں آ گیا۔ نوٹ کیجیے، رہبر ترقی و کمال کو چھ اور بھائی لوگوں کو چار سیٹوں کی قربانی دینا پڑی (یا ان سے لی گئی) کل کتنی ہوئی؟ جی دس۔ اب وہ رپورٹ دیکھیے جو تین دن پہلے زیر گردش آئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ آج کی رات ایک جماعت کو کراچی میں چار سیٹوں پر جتوایا گیا تھا۔ نیم گلو گیر اور نیم آتش گیر لہجے میں کسی نے انتباہ کیا کہ چار قبول نہیں چودہ سے کم قبول نہیں یعنی دس سیٹوں کا تقاضا۔ رہبر ترقی و کمال اور بھائی لوگوں سے رات گئے جو ہوا وہ اسی فون کی تعمیل ارشاد تھا۔ اجزا جڑ گئے۔ فارمولا سمجھ میں آ گیا کراچی میں بھی شفاف الیکشن ہوئے، یہ بات بھی واضح ہو گئی، شکر الحمد للہ۔ ٭٭٭٭٭بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فون کیا۔ جیل میں بند اپنے یار کو نہیں، نئے وزیر اعظم کو، جو گیارہ تاریخ کو حلف اٹھانے والے ہیں۔ گیارہ تاریخ کے بابرکت ہونے کا اشارہ کسی کے استخارے سے ملا ہے ایسا پتہ چلا ہے۔ مودی نے وزیر اعظم خان کو مبارکباد دی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی سگالی نیک مطلوب چاہی۔ وزیر اعظم خان نے مودی کو یہ اطلاع دی یا فرمائش کی کہ دونوں ملکوں کے عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو مشترکہ تدابیر اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت مل کر ایک دوسرے کی غربت دور کریں گے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ یہ اعتراض منفی اور لا علمانہ سوچ کا مظہر ہے۔ صاحبان کو پتہ نہیں ہے کہ ماضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ماضی قریب، ماضی بعید اور ماضی مدفون، کچھ مسائل ماضی مدفون کا حصہ ہے۔ ترقی کی مشترکہ کوششوں میں بوسیدہ قبریں کھودنے، گڑھے مردے اکھاڑنے کی گنجائش کہاں ہوتی ہے یہ بھارت کے ایک اور ہمارے دو قدم آگے بڑھنے کا دور ہے جسے ہمارے اصحاب تقویٰ قلمکاروں نے فتح مبین اور ریاست مدینہ کا نام دیا ہے۔ ٭٭٭٭٭پرویز مشرف پر ایک مقدمہ سنگین غداری کیس کے نام سے تھا۔ جب سے یہ مقدمہ بنا ہے، لاپتہ ہے لیکن فائلوں کی حد تک پابند ضرور ہے۔ اس کیس کی پیروی اکرم شیخ کر رہے تھے، اب وہ اس سے دستبردار ہو گئے ہیں نئی حکومت جانے اور اس کا کام جانے ہم تو چلے، اکرم شیخ کے بیان کا مطلب کچھ اسی طرح کا ہے شاید۔