Dawam Jung
Abdullah Tariq Sohail92
چین نے اپنی برّی فوج کو پچاس فیصد سے بھی زیادہ کم کر دیا ہے۔ 25لاکھ کی جگہ اب محض دس لاکھ کی فوج ہو گی۔ اس کے بجائے وہ اپنی فضائیہ اور بحریہ کو ترقی دے گا۔ پہلی نظر میں شاید یہ تاثر ملے کہ چین اسلحی جنگ سے توجہ کم کر کے معاشی جنگ پر بڑھا رہا ہے۔ یہ تاثر اگرچہ اتنا غلط بھی نہیں لیکن اصلی بات یہ ہے کہ نئے دور میں جنگی ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اب ہتھیار انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں اور بری فوج کی عدد برتری کوئی برتری نہیں رہی۔ چند عشرے پہلے تک چین کی عوامی فوج ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی لیکن جوں جوں وہ ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں آگے بڑھتا گیا۔ توں توں اس کی فوجی نفری کم ہوتی گئی۔ اسرائیل اس میدان میں شروع سے ہی بہت آگے ہے۔ اس کی فعال لڑاکا فوج محض 26، 25ہزار ہے لیکن وہ کئی کئی لاکھ کی فوج والے عرب ملکوں پر بھاری ہے۔ نئی ٹیکنالوجی بہت حیرت ناک ہے۔ آج سے کچھ عرصے پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ روز بروز نئے میزائل تیار ہو رہے ہیں، ایسے جہاز جو اتنے اونچے اڑتے ہیں کہ نظر ہی نہیں آتے اور کارپٹ بمباری کرتے ہیں۔ پھر ایسے راکٹ جو خود ہی ہدف کو تلاش کر کے اس پر جا گرتے ہیں اور اب کچھ عرصے سے ڈرون طیاروں نے جنگ کا میدان بھی بدل دیا ہے۔ امریکہ کو دیکھیے، اس نے تھوڑی سی فوج بھیج کر عملاً محض فضائی طاقت سے افغانستان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس ہفتے سپیکٹیٹر انڈکس نے سال گزشتہ کے حوالے سے فوجی طاقت کا ایک گوشوارہ دیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جن ملکوں کے پاس زیادہ ٹیکنالوجی اور فضائی ہتھیار ہیں، وہی بڑی طاقت ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ 23لاکھ فوج کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے تو روس اس سے دس لاکھ زیادہ فوجی یعنی 33لاکھ کے باوجود دوسرے نمبر پر ہے اور در حقیقت اس پہلے اور دوسرے نمبر کے درمیان بہت فرق ہے۔ چین تیسرے اور بھارت چوتھے نمبر پر ہے۔ اور فرانس کو دیکھیے وہ محض پونے چار لاکھ فوج کے ساتھ پانچویں اور برطانیہ سوا دو لاکھ فوج کے ساتھ چھٹی بڑی طاقت ہے۔ جاپان ساتویں اور ترکی نویں بڑی عالمی طاقت ہے۔ ترکی کی فوج ساڑھے سات لاکھ ہے جبکہ جاپان کی محض تین لاکھ۔ مسلمان ملکوں میں ترکی اگر پہلی بڑی طاقت ہے تو مصر ساڑھے تیرہ لاکھ فوج کے ساتھ دوسری طاقت ہے۔ اس کے بعد پاکستان ہے جس کی افواج کی گنتی 9لاکھ سے زیادہ ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ عالمی سطح پر مصر، پاکستان اور انڈونیشیا کی رینکنگ بالترتیب 9، 13اور 14ہے۔ ایران کا نمبر 21واں اور سعودی عرب کا 24واں ہے۔ 25بڑی طاقتوں میں شمالی اور جنوبی کوریا بھی ہیں۔ جنوبی کوریا کی فوج 58لاکھ سے زیادہ ہے۔ محض 5کروڑ آبادی والے اس ملک کی اتنی بڑی فوج حیرت ناک ہے۔ اس کا نمبر بارہواں ہے۔ اس کے حریف شمالی کوریا کی فوج اس سے بھی زیادہ ہے یعنی 65لاکھ لیکن و رینکنگ میں 23ویں نمبر پر ہے جبکہ آبادی محض 2کروڑ چالیس لاکھ یعنی ہمارے صوبے پختونخواہ سے بھی کم۔ یعنی اس کی فوج بلحاظ آبادی جنوبی کوریا سے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ کوریا کو سوویت یونین نے دو ٹکڑے کیا تھا اور پھر جنوبی کوریا سے جنگ کرا دی جس میں عالمی طاقتیں بھی کود پڑیں۔ 51سے 1953ء تک ہونے والی اس جنگ میں پچاس لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اندازہ ہے کہ ان میں 25لاکھ فوجی اور 25لاکھ عامی شہری تھے۔ دوسری جنگ عظیم جس رقبے اور آبادی پر لڑی گئی اس کے تناسب سے کوریا کی جنگ زیادہ تباہ کن تھی۔ موجودہ دور سائنسی تحقیقات کے عروج کا دور ہے۔ اتنی تیز رفتار سائنسی ترقی اور ایجادات کا ماضی قریب میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن اس ترقی میں سب سے زیادہ حصہ جنگی ٹیکنالوجی کا ہے۔ انسان کے اندر جتنی برائیاں ہیں ان سب میں بڑی برائی جنگ ہے۔ ذرا یاد کیجئے، قرآن پاک میں آتا ہے کہ جب خدا نے کرہ ارضی پر بسانے کے لئے انسان کی تخلیق کی تو اس کا تخلیقی فارمولا دیکھ کر فرشتوں نے کیا کہا تھا؟ ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یاخدا یہ مخلوق تو دنیا میں جا کر فلاں اور فلاں گناہ کرے گی بلکہ یہ کہا کہ یہ تو زمین پر خون بہائے گا۔ اور اس نے خون بہایا۔ ہر دور کے دانشوروں نے جنگ کو سب سے بڑی برائی قرار دیا لیکن یہی وہ برائی ہے جو انسان اپنی زمین پر آمد کے بعد سے اب تک بلا وقفہ کرتا آ رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی سال تو دور کی بات ہے، کوئی مہینہ کوئی ہفتہ بلکہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کہیں نہ کہیں جنگ نہ ہوتی رہی ہو۔ جنگ فوج کرتی ہے لیکن جنگ کرانے والے بالعموم سیاستدان اور بادشاہ ہوتے ہیں۔ جرنیل ان کا حکم بجا لاتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ جنگ کا فیصلہ جرنیلوں نے کیا ہو۔ تمام مذاہب جنگ کے مخالف ہیں لیکن تمام مذاہب کے پیروکار جنگ ہی کے پجاری ہیں۔ مسیحی مذہب یہ ہے کہ دشمن کو معاف کرو لیکن تاریخ میں سب سے زیادہ خون اہل یورپ نے بہایا ہے جو سب کے سب مسیحی تھے۔ مسلمان ان کے بعد ہیں۔ جنگ میں مرنے والا ہر سپاہی کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے۔ روس، فرانس کی جنگ کے حوالے سے ٹالسٹائی کا ایک افسانہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اس میں ایک بوڑھی روسی ماں اپنے علاقے میں دفن دشمن کے نامعلوم سپاہی کی قبر پر شمع جلاتی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں، یہ تو دشمن کا سپاہی ہے تو ماں نے کہا وہاں دشمن کے علاقے میں میرا بیٹا بھی گمنام قبر میں دفن ہے۔ شاید کوئی بڑھیا اس کی قبر پر بھی شمع جلاتی ہو۔ یہی جنگ کی حقیقت ہے۔