Eid Qurban Sunnat Ya Mela
Abdullah Tariq Sohail77
کچھ برسوں سے عید قربانی گوشت خوری کا سالانہ دن بنتی جا رہی ہے۔ ایک طبقے کو عید پر بھی دال بھات کھانا پڑتا ہے، اور ایک بالائی طبقہ ہے جو اتنے جانور قربان کرتا ہے کہ گوشت رکھنے کے لیے گھر میں کئی کئی فریج بھی کم پڑ جاتے ہیں اور یوں گوشت خوری کا سالانہ دن کئی دنوں تک پھیل جاتا ہے۔ اس کار خیر میں ہمارے ٹی وی چینلز (اکثر و بیشتر) پیش پیش ہیں۔ عید کے پروگرام عید سے پہلے شروع ہو جاتے ہیں اور عید ختم ہونے کے بعد بھی لگے رہتے ہیں اور ان میں ہوتا کیا ہے؟ کہیں سے بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ عید قربان کس چیز کا نام ہے۔ جو معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہی کہ گوشت کے نت نئے پکوان، ایک سے بڑھ کر ایک ڈش کیسے بنانی ہے، کس طرح کھانی ہے، مزا کس طرح بڑھانا ہے۔ وہ چاہے ٹی وی پروگرام ہو یا اس پر چلنے والے اشتہار، سب ایک ہی کلچر کو پھیلانے میں مگن ہیں۔ کھائو پیو، ناچو گائو کلچر۔ ٭٭٭٭٭ پیٹ پجاری طبقہ تو روز اول سے موجود ہے لیکن اس دور میں کارپوریٹ اور گلوبل کلچر نے اسے گلیمرائز کر دیا ہے۔ پاکستان میں اس کلچر کو نحوستوں کی اس سہاگ پڑے نے پھیلایا جس کا عرفی نام پرویز مشرف تھا۔ اس نے کھانے پینے موج اڑانے کے کلچر کو ایسا مذہب بنا دیا کہ جو اسے نہ مانے، مرتد ہو جائے۔ اس نے غریبوں سے چھینا، ایلیٹ کلاس کو دیا اور پھر ایلیٹ کلاس کی مردم شماری بھی بڑھائی اور اسی لوٹ مار کلاس نے بعد کے برسوں میں "انصاف" کا نعرہ بھی لگایا۔ خیال تھا کہ مشرف کے جانے سے اس نامسعودکلچر کا زور بھی کم پڑ جائے گا لیکن اس کے تو سونامی بننے کے دن آ گئے۔ ٭٭٭٭٭ اسی انصافی کلچر کے علمبردار ایک کامیڈین صاحب بھی ہیں۔ ویسے وہ کامیڈین ہیں تو نہیں لیکن دعویٰ کرتے ہیں اور اگر دعویٰ کرتے ہیں تو کیوں جھٹلایا جائے۔ یہ اپنے ہر کامیڈی شو میں ایک ہی علم کے" جنرل نالج" کی تدریس کرتے ہیں۔ کون سے جانور کے جسم کا کون سا حصہ کتنے مزے کا ہوتا ہے، اسے کیسے کیسے پکایا جاتاہے۔ ہرن بہت اچھا ہے، اس لیے نہیں کہ بہت خوبصورت ہے بلکہ اس لیے کہ کھانے میں خوب سیرت ہے۔ پرندے ان کے نزدیک محو پرواز حسن نہیں، اڑتا ہوا کڑاہی گوشت ہے۔ پوری ایک نسل انہوں نے مطبخ یونیورسٹی کی گریجوایٹ بنا دی ہے۔ اس نسل کے اور بھی کامیڈین اور اینکر ہیں جو پورے مذہبی جوش و خروش سے اس تعلیم کا نور پھیلا رہے ہیں کہ زندگی کا مقصد ایک سے ایک مزے کا کھانا ایک سے ایک مزے کا اڑانا ہے۔ ٭٭٭٭٭ قربانی کا شرعی حکم تو یہ ہے کہ جو جانور کاٹو، اس کا گوشت کچھ کھائو، کچھ غریبوں کو دو غریبوں کو دینے والے بھی ہیں لیکن کم، زیادہ وہ ہیں جو اپنے سے زیادہ دولت یا مقام والے کو گوشت کا تحفہ بھیجتے ہیں، کسی کو تو پوری کی پوری ران، کسی کو آدھا بکرا۔ قربانی کرنے کا مقصد اوپر والے کو راضی کرنا ہے لیکن نیا مذہب اوپر والے کو نہیں، اوپر والوں کو خوش رکھنا ہوگیا ہے۔ سنت ابراہیمی ؑکو ہم نے کیا سے کیا کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ بھارت ہمارا پڑوسی ہے جہاں 20کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ کبھی یہ 20 کروڑ مسلمان ہمارے پڑوسی نہیں، ہمارے ہی جتھے کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن برصغیر کیا تقسیم ہوا مسلمانوں کی قسمت بھی الگ الگ ہو گئی۔ ہمارے ہاں کے اوپر والوں کو گوشت رکھنے کے لیے فریجیں کم پڑ جاتی ہیں اور بھارت کے مسلمانوں سے اب قربانی کرنے کا حق بھی چھین لیا گیاہے۔ پہلے گائے کاٹنے پر پابندی لگی کہ یہ تو ہماری ماتا جی ہیں۔ اب بکرا اور دنبہ بھی نہیں کاٹ سکتے کہ جیو ہتھیا ہوتی ہے۔ بی جے پی کے کارکن مسلمان محلوں میں پولیس کی طرح گھومتے ہیں جہاں قربانی کا شک ہوا بکرا بھی پکڑ لیا اور بکرے والے کو بھی۔ اصلی پولیس ان کے ساتھ بطور سکیورٹی گارڈ چلتی ہے۔ اقبال نے پچھلی صدی کے شروع میں کہا تھا کہ ؎ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد وہ زندہ ہوتے تو نہ جانے نیا شعر کیا لکھتے کہ اب تو سجدے اور قربانی کی آزادی بھی گئی۔ کئی علاقوں میں مسجد بنانے پر پابندی ہے تو کئی میں مسجد جانے پر، بہرحال آج کے دن سب کو عید مبارک ہو اور ان مبارک گھڑیوں میں دور کے نہ سہی ان قریب کے مسلمان بھائیوں کی مشکل بھی ذہن میں رہے تو کیا خرابی ہے۔ ٭٭٭٭٭ عید پر دنیا بھر میں لاکھوں نہیں، کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ اس پر بعض حیوانی ہمدردی کی تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا اس طرح جانور ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے۔ اس کے بجائے گولی مار کر ہلاک کرنا چاہیے۔ حلال اور حرام کے فلسفے سے انہیں واقفیت نہیں ہے، اس لیے وہ ایسی بات کرتے ہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ انہیں ذبح کرنے کے اسلامی طریقے کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہیں۔ اسلام نے جو طریقہ بتایا ہے اس کے تحت جانور ایک دو منٹ کی تکلیف اٹھانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ واضح حکم ہے کہ چھری تیز ہو، تیزی سے پھیری جائے تاکہ خون فوراً سارے کا سارا نکل آئے۔ اصل میں تو جب گردن کو جھٹکا دیا جاتا ہے تو دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور تکلیف کا مرحلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ گولی مارنے سے جانور چاہے بے حس و حرکت ہو جائے، وہ ہوش میں رہتا ہے اور زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے۔ اسلام میں یہ بھی حکم ہے کہ کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے۔ لیکن یورپ امریکہ اور آسٹریلیا میں جس طرح کروڑوں جانور ہر روز قتل کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ ظلم ہے اور ساتھ ہی یہ ظلم بھی کہ سب کو سب کے سامنے مارا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ھک Hookسے جانوروں کو الٹا لٹکایا دیا جاتا ہے اور ایک چھرے والا آتا ہے سب کی گردن پر ادھورا چھرا پھیرتا اس سرے سے اس سرے تک نکل جاتا ہے۔ جانور آدھا آدھا گھنٹہ تڑپنے کے بعد مرتے ہیں۔ اور زرد ملکوں (یعنی چین، جاپان، کوریا، ویت نام وغیرہ) میں جو کچھ ہوتا ہے وہ تو اس سے بھی ناقابل تصور ہے۔ ان قوموں کا فلسفہ ہے، مرنے میں جانور جتنی دیر لگائے گا اور جتنا زیادہ تڑپے گا اس کا گوشت کھانے میں اتنا ہی زیادہ مزیدار ہو گا۔ یہ لوگ جانوروں کو جس طرح مارتے ہیں اسے لکھنے کے لیے پتھر کا دل، پڑھنے کے لیے لوہے کا کلیجہ چاہیے۔ بس ایک طریقہ سن لیجیے، جانوروں کو زندہ فرائی کیا جاتا ہے، زندہ ابالا جاتا ہے، آگ میں زندہ بھونا جاتا ہے زندہ جلانے میں اور بھوننے میں فرق ذہن میں رکھیے۔ زندہ جلا دیا، پانچ دس منٹ میں مر گیا۔ زندہ بھوننے کا مطلب ہے کہ اس طرح جلایا جائے کہ گوشل جل کر کوئلہ نہ ہو جائے۔ خدا کی پناہ۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم عمران خاں کی کابینہ نے جو پہلا فیصلہ کیا ہے اس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ حکومت کے نزدیک کرنے کا اصل کام کیا ہے اور اس کی ترجیحات کی ترتیب کیا ہے۔ پہلا فیصلہ جیل میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کا ہے۔ کیا یہ لوگ جیل توڑ کر بذریعہ ایئر پورٹ ملک سے فرار ہونے والے تھے؟ ان کی ضمانت کا تو دور دور تک امکان نہیں۔ اپیل کی سماعت سے کچھ خوش فہموں کو غلط فہمی ضرور ہو گئی لیکن دور بھی تو ہو گئی۔ اگلے سو روز تک اسی طرح کے تسکین جذبات والے معرکے ہوں گے۔ اور کچھ نہیں اور اس کے بعد کے سو روز میں بھی "اب ہم بادشاہ ہوں " کی عمل انگیزی کے سوا کچھ نہیں ہونے والا۔ وزیر اعظم نے اپنے انتخاب کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ "ڈاکو" کو نہیں چھوڑوں گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں ایک ہی شخص کا تخلص ڈاکو ہے جس کا نام نواز شریف ہے۔