Falasteen. Hizaf Shuda Baab
Abdullah Tariq Sohail68
بحرین کے وزیر خارجہ نے اطلاع دی ہے کہ اگلے سال ایک عرب "نیٹو" وجود میں آ رہا ہے جس میں امارات، یمن، کویت، سعودی عرب، مصر، بحرین اور سلطنت عمان شامل ہوں گے۔ گویا یہ "اسلامی نیٹو" کی وفات کو تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔ اسلامی نیٹو کی وفات اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ یہ باقاعدہ پیدائش سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔ سفارتی اور ابلاغی حلقے اس پر تبصرہ کر چکے ہیں۔ عرب نیٹو کا اعلان کر کے اس کی رسید دے دی گئی ہے۔ ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ اس اتحاد میں سوڈان بھی شامل ہو گا۔ یہ اتحاد کس کے خلاف ہو گا؟ بتانے کی ضرورت نہیں لیکن اس کا ایک نشانہ "قطر" بھی ہو سکتا ہے۔ شاید اگلے سال تک وہ راہ راست پر آ جائے یا پھر کوئی ایسی کرامت ہو جائے کہ سعودی عرب کی اس سے صلح ہو جائے۔ اس نیٹو میں سلطنت عمان کی شمولیت ایک نئی پیشرفت ہے۔ اس لیے کہ اب تک وہ یمن کے جھگڑے میں غیر جانبدار رہا ہے اور اس کے جتنے اچھے تعلقات سعودیہ سے رہے ہیں، اتنے ہی ایران سے بھی رہے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے اس کی پالیسی میں سعودی عرب کی طرف جھکائو کے آثار تھے، اس نئے اعلان سے یہ جھکائو واضح ہو گیا ہے گویا۔ عرب و عجم کا تنازعہ اب پوری طرح صف بند ہونے والا ہے۔ ٭٭٭٭٭سلطنت عمان کا ایک اور اعلان معنی خیز ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وقت آچکا ہے۔ یہ بیان اس تناظر میں اہم ہے کہ عرب سٹریٹجک الائنس کو اسرائیل کی پوری مدد حاصل ہونے کی رپورٹیں تواتر سے چھپ رہی ہیں۔ عملاً تو تمام عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں جن کے سفارتی تعلقات ہیں وہ تو اپنی جگہ رہے، جن کے نہیں ہیں، تجارت میں ان کا تعاون بھی اسرائیل کو حاصل ہے۔ عمان کی اسرائیل سے خفیہ دوستی ڈھکی چھپی نہیں، اسی طرح امارات کا معاملہ بھی ہے۔ اسلامی روایت پسند قطر کے بھی اسرائیل سے روابط جانے پہچانے ہیں۔ عمان کے اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ جو تعلقات درپردہ ہیں۔ انہیں اب قانونی حیثیت دے دی جائے۔ چار عشروں میں کتنا زبردست انقلاب آ گیا۔ مصر اسرائیل کا جانی دشمن تھا اور سعودی عرب فلسطینی کاز، قبلہ اول کی بازیابی کا سب سے بڑا داعی۔ اب پورے عالم عرب میں اسرائیل کا ایک بھی دشمن نہیں ہے اور فلسطینیوں کا ایک بھی حامی نہیں ہے۔ قبلہ اول اب قبلہ سابق ہو چکا ہے۔ اور اس طرح متروک کا ہم معنے۔ ٭٭٭٭٭کچھ تقدیر کا دخل ہے، کچھ عربوں، خاص طور سے فلسطینیوں کی غلطی کا کہ اسرائیل اتنا طاقتور اور فلسطینی اتنے درماندہ اور بے بس ہو گئے ہیں۔ 1948ء میں جب اعلان بالفورپر عمل ہوا تو کم از کم اتنا عرصہ گزرنے کے بعد لگتا ہے کہ فلسطینیوں کو یہ تقسیم قبول کر لینی چاہیے تھی۔ اس اعلان کے تحت موجودہ اسرائیل(جس میں مغربی کنارہ اور غزہ شامل ہیں ) کا آدھے سے بہت کم رقبہ یہودیوں کو دیا گیا تھا، باقی سارا فلسطینیوں اور عربوں کے پاس رہنا تھا اور بیت المقدس بھی۔ لیکن عربوں اور فلسطینیوں نے اپنی قوت اور عالمی صورت حال کا خیال رکھے بغیر یہودیوں سے لڑائی شروع کر دی جو وقفے وقفے سے ایک عشرے تک جاری رہی۔ لڑائی کے ہر سلسلے کا ایک ہی نتیجہ برآمد ہوا۔ یہ کہ یہودیوں کے زیر قبضہ رقبہ بڑھتا چلا گیا تھا۔ یہاں تک وہ مغربی کنارے اور غزہ کو چھوڑ کر، موجودہ اسرائیل کے سارے رقبے پر قابض ہو گئے۔ فلسطینیوں کی اس "عملی" غلطی کی وجہ بھی تھی کہ ان کی کوئی معقول اور متفق علیہ سیاسی قیادت موجود نہیں تھی۔ مفتی اعظم (مرحوم) جوان تھے اور جذباتی بھی۔ اس لڑائی میں عرب ملکوں سے مدد ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ البتہ مصر سے اخوان المسلمون کے کارکن بڑی تعداد میں آئے لیکن غیر فوجی پس منظر کی وجہ سے نہ صرف مارے گئے بلکہ خود مصر میں حکومتی عتاب کا نشانہ بنے۔ ٭٭٭٭٭1973ء میں جنگ رمضان ہوئی۔ انوار سادات مصر کے فوجی حکمران تھے۔ مصر کی فوج نے صحرائے سینا میں نہر سویز کو پار کر کے وہ بارلیو لائن توڑ ڈالی۔ جسے اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں سینا پر قبضے کے بعد تعمیر کیا تھا اور جو ناقابل تسخیر مانی جاتی تھی۔ مصر کی فوج نے سینا میں دسیوں کلو میٹر تک اندر چلی گئی۔ امریکہ کے زیر اہتمام کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہوا جو اس لحاظ سے اسرائیل کی فتح تھا کہ عرب فریق نے اس کا وجود تسلیم کر لیا۔ لیکن اس لحاظ سے مصر کی بھی فتح تھی کہ اس نے 1967ء کی جنگ میں کھویا سارا علاقہ واپس لے لیا اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ایک ٹیم خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ بھی ہموار کر دی۔ فلسطینی تحریک آزادی کے قائد یاسر عرفات نے"حقیقت اور حکمت پسندی" سے کام لیا اور اس حل پر راضی ہو گئے لیکن حماس کی قیادت جو ایران کے زیر اثر تھی اور جسے علم نہ تھا کہ ایران کی مستقبل کی سیاست میں فلسطینی راستے کا کانٹا ہیں۔ مزاحمت پر ڈٹی رہی جس کے نتیجے میں غزہ برباد ہو گیا۔ عرب نیٹو، مشرق وسطیٰ کی نئی تصویری کتاب میں اب فلسطین نام کا کوئی باب نہیں رہا۔