Ghair Maree Karkardgi
Abdullah Tariq Sohail83
تبدیلی سرکار نے جو اب خیر سے انڈے مرغی کی سرکار بھی ہو گئی ہے، روپے کو اس کی اوقات دوسری بار دکھانے کے لیے جمعے کا دن چنا۔ یہ کام وہ جمعرات کوبھی کرسکتی تھی لیکن اس روز کارکردگی کے سو دن پہلے ہی پورے ہو چکے تھے اور اس سو دن میں کارکردگی کا اتنا وفور تھا کہ مزید کارکردگی کی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ روپے کی قیمت کو بے قیمت کرنے کا دوسرا وار اگلے روز کیا گیا یوں اگلے سو روز کی کارکردگی کی شروعات ہوئی۔ اسی روز شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافے کا تاریخ ساز فیصلہ بھی کیا گیا۔ سنتے تھے کہ قیامت جمعے کو آئے گی، سو ملکی معیشت پر یہ قیامت بھی جمعے ہی کو آئی۔ انڈے مرغی کی سرکار کی ہر معاشی پالیسی دودھاری تلوار ہوتی ہے۔ اسی تازہ فیصلے کو دیکھ لیجئے، ایک طرف بیروزگاری بڑھے گی اور مہنگائی موجیں مارے گی تو دوسری طرف پیداواری عمل کا سقوط بھی ہوگا۔ عوام کا عرصہ حیات عرصہ محشر میں بدل گیا ہے اور کیا چاہیے۔ تحریک انڈا مرغی کے ایک بزرجمہر نے فرمایا، روپیہ سستا ہونے سے برآمدات بڑھیں گی۔ ہر شے کی پیداواری لاگت بڑھ جائے تو وہ برآمدات کے قابل ہی کہاں رہے گی، برآمدات پھر بھی بڑھ جائیں گی، جادو ہو تو ایسا…!٭٭٭٭٭سو دن پورے ہوئے تو حکومت نے دو کارکردگی نامے جاری کئے یعنی میڈیا پر دو قسم کے اشتہار چلائے۔ ایک اشتہار اوپر سے نیچے تک غریب کی جیب کی طرح خالی تھا، نیچے لکھا تھا ہم مصروف تھے (اس لیے کاکردگی کا خانہ خالی رہ گیا)۔ کس بات میں مصروف تھے، غریبوں کی دکانیں مکانیں گرانے میں؟ پروٹوکول والے دورے کرنے میں؟ یا کچھ اور قسم کی غیر مرئی مصروفیات تھیں۔ دوسرے اشتہار میں پچاس سے زیادہ اخباری سرخیاں اکٹھی کردی گئی تھیں اور سب کی سب اعلانات اور دعوئوں کی تھیں۔ اعلان کرنا بھی کارکردگی ہے، دعوے اور وعدے کرنا بھی کارکردگی، سبحان تیری قدرت۔ سچ پوچھئے تو انڈا مرغی تحریک کے میڈیا سیل سے کوتاہی ہوگئی۔ کارکردگی سے بھرا اشتہار جاری کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سو دن میں کچھ نہیں ہوسکتا، غلط کہتے ہیں۔ انڈے مرغی کی سرکار نے سو دن میں اتنا کچھ کردیا کہ رستم سے افرا سیاب تک سارے مل کر بھی اتنا کچھ نہیں کرسکتے۔ ان سو دنوں میں کیا نہیں ہوا؟ ڈالر ایک سو پانچ روپے سے بڑھ کر 138 روپے کا ہوگیا، کچھ دنوں بعد 140 کا پھر 150 کا بھی ہو گا۔ انشاء اللہ۔ وفاق کا ترقیاتی بجٹ چالیس فیصد، پنجاب کا پچاس فیصد سے بھی زیادہ کم ہوا، جلد ہی سو فیصد صاف ہوگا، انشاء اللہ۔ مہنگائی دوگنی ہوگئی، جلد چار گنا ہوگی، انشاء اللہ۔ لاکھوں لوگ بے گھر، لاکھوں بیروزگار ہوئے، مزید ہوں گے، انشاء اللہ۔ شرح افزائش ساڑھے پانچ فیصد سے کم کر ہو پونے تین فیصد پر آ گئی، جلد ہی صفر فیصد پر آ جائے گی، انشاء اللہ۔ ہم تو ایسے ہیں بھیا۔ خان صاحب نے جو کہا تھا، کردکھایا۔ فرمایا تھا، ترقی ترقیاتی کاموں سے نہیں ہوتی، ہوگی بھی نہیں، انشاء اللہ۔ ٭٭٭٭٭دوزہرخند تبصرے حافظ حمداللہ اور سراج الحق کے سامنے آئے ہیں، حافظ صاحب نے فرمایا، صاحب کو جنہوں نے اقتدار دیا، صاحب نے انہی کی ناک کٹوا دی۔ حافظ صاحب نے دراصل اس نگہ انتخاب کو داد دی ہے جس کی پسلی "صاحب" کو لانے کے لیے پھڑک اٹھی تھی، یہ اندازہ تو تبھی ہو گیا تھا کہ نتیجے میں صاحب قوم کو پھڑکا کر رکھ دیں گے سو پھڑکا کر رکھ دیا۔ لیکن پھڑکانے کی رفتار شاید کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے۔ خیر، نگہ انتخاب کو اس صدقہ جاریہ کا ثواب تو تاریخ میں ملتا ہی رہے گا۔ سراج الحق نے فرمایا، کسی بھی شعبے میں، کہیں بھی، کوئی کارکردگی نظر نہیں آ رہی۔ عرض ہے کہ محترم، یہ حکومت غیر مرئی "ووٹوں " سے آئی ہے تو کارکردگی بھی غیر مرئی ہی ہوگی۔ ٭٭٭٭٭صاحب کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی یا نہ جانے کس کے موڈ میں کیا آیا کہ صاحب کو ایسی بات سمجھا دی کہ لوگ بول اٹھے، یہ توصاحب کو بہت دور کی سوجھی۔ بیروزگاری اور بھوک کا علاج یوں پیش فرمایا کہ ایسی مرغیاں پالو، سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ صاحب کو کسی نے نہیں بتایا کہ دیسی مرغی سال بھر میں چند درجن انڈے ہی دیتی ہے اور پھر ایک گھرانہ آخر کتنی دیسی مرغیاں پال سکتا ہے۔ دیسی مرغیاں رکھنے سے گھر کا تو کیا، گھر کے محض ایک فرد کو بھی روزگار نہیں مل سکتا۔ پھر صاحب کو یہ بھی کسی نے نہیں بتایا کہ اضافی شوق اور ضرورت کے طور پر دیہات کے گھروں میں دیسی مرغیاں رکھنے کا رواج تو صدیوں سے ہے، شہر میں یہ کام کاردارد ہے۔ ایک ہی دن اور رات میں اس سجھائو کی ایسی بھداڑی کہ پانچ سال میں بھی کیا اڑتی۔ اس پر صاحب نے بل گیٹس کی گواہی پیش کی کہ ایسی تجویز تو وہ بھی دے چکے ہیں، ان کی بھد تو کسی نے نہیں اڑائی۔ بل گیٹس نے دیسی مرغیوں کی نہیں، کاروباری پولٹری کی تجویز دی تھی اور وہ بھی ناقابل عمل تھی چنانچہ گیٹس نے اس تجویز پر خاموشی اختیار کرلی۔ پولٹری گھروں میں ہو ہی نہیں سکتی، کارخانہ لگانا پڑتا ہے۔ صاحب ایسی ہی تجویزوں سے معیشتیں چلانے پر مصر رہے تو کیا پتہ، کل کلاں یہ تجویز بھی پیش کردیں کہ حکومت آپ کو مٹکی مدہانی دے گی، گھروں میں لسی بلوئیں، بیچیں اور منافع سے مکان بنالیں، ہم تو دینے سے رہے۔ ٭٭٭٭٭تحریک لبیک کے ہزاروں کارکن توڑ پھوڑ کے جرم میں بند ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ جو کارکن تحریک سے لاتعلقی کے حلف نامے پر دستخط کردیتے ہیں، انہیں رہا کیا جارہا ہے۔ گویا جرم توڑ پھوڑ کا نہیں، "تعلق" کا ہے۔ جو اس تعلق سے بے تعلق ہو جائے، بری ہے، جو نہ ہو گنہگار ہے۔ ایسا ہی تجربہ کراچی میں "کمال لانڈری" کے نام پر بھی کیا جا چکا ہے۔ متحدہ کے جو کارکن متحدہ سے لاتعلق ہو کر کمال سے مل جاتے تھے، صادق و امین قرار دے دیئے جاتے تھے، بھلے سے انہوں نے درجنوں کے حساب سے قتل کئے ہو، کروڑوں کی بھتہ خوری کی ہو، ان گنت اغوا برائے تاوان کئے ہوں۔ تحریک کے سربراہ پر اب بغاوت کا کیس بھی بن گیا ہے۔ آئین میں "بغاوت" کسے کہتے ہیں، اس سے کسے کیا غرض، بس مقدمہ بنا دیا تو بنا دیا۔ ان کی مسجد رحمت للعالمین دس بارہ دنوں سے بند ہے۔ مقدمہ مولانا پر ہے، مسجد کیوں بند ہے۔ یہ بھی شاید دستور ہے کہ کوئی امام کسی جھوٹے سچے مقدمے میں پکڑ لیا جائے تو اس کی مسجد کو بھی تالا بند کردیا جائے۔