Hukumat Ne Tabahi Se Bacha Lya
Abdullah Tariq Sohail90
سیانوں کا مشورہ بہت کارآمد ہے کہ بولنے سے پہلے اچھی طرح تولو ورنہ۔ سچ منہ سے نکل جائے گا۔ کامیاب زندگی کا ایک گر سچ سے پرہیز بھی ہے۔ افسوس ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس گراں قدر، مجرب مشورے پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ چوک گئے اور سچ منہ سے نکل گیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے "انکشاف" فرما دیا کہ امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں قدم نہیں جما سکتا۔ یعنی بات کھول دی(اتنی ڈھکی چھپی تو خیر پہلے بھی نہیں ہے) کہ معاملہ کچھ اور نہیں، اختلاف کوئی اصولی نہیں یعنی اس بات پر نہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں رہنا چاہیے یا نکل جانا چاہیے۔ صرف اتنا جھگڑا ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغانستان پر تسلط رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کام کے لیے ہماری مدد لی جائے۔ یعنی افغانستان پر بدستور امریکہ کا قبضہ رہے۔ فریقین اس بارے میں "قومی" اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ بہت برس پہلے کسی نے کہا تھا، امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کا ڈر سب سے زیادہ پاکستانی اشرافیہ کو ہے۔ خیر سے اشرافیہ اب پاکستان کے سیاہ سفید کی کلی، بلا شرکت غیرے مالک ہے(تاریخ میں پہلی بار) شاید منہ سے "سچ" کا اس بلا خوف و خطر برآمد ہو جانا غیر ارادی نہ ہو، ارادی ہی ہو۔ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں تبدیلی صرف مہنگائی کی صورت میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی مہنگائی کے سونامی میں ڈوب گیا ہے۔ شاید امیر جماعت نے وزیر خزانہ اسد عمر کے بیانات نہیں پڑھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو عام آدمی کو مہنگائی سے بچایا ہے۔ ان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا بلکہ انہیں رعایت دی ہے۔ یہ بیانات پڑھے ہوتے تو سراج الحق کو مہنگائی کا شکوہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ شاید!اور کچھ لوگوں نے "عام آدمی" کی تشریح بھی کی ہے۔ یعنی یہ کہ اسد عمر کے خیال میں چودھری سرور، زلفی بخاری، جہانگیر ترین اور علیم خاں وہ عام آدمی ہیں جن پر اسد عمر کے مطابق کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ انہیں ریلیف دیا گیاہے۔ واللہ اعلم۔ تحریک انصاف کی قیادت حالیہ "معاشی بحران" کو معاشی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم نے معاشی تباہی کو ٹال دیا۔ قیادت تو قیادت، اس جماعت کے قصیدہ خواں تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ گزشتہ دنوں ایک قصیدہ خواں نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ایک اخبار میں لکھا کہ عمران خاں کی حکومت نے معاشی مسائل پر قابو پا لیا۔ ایسا نہ ہوتا تو آج اشیائے صرف کی قیمتیں تین ہزار گنا زیادہ ہوتیں۔ تین ہزار گنا زیادہ۔ یعنی دس روپے کی روٹی30ہزار روپے کی، نان45ہزار کا ملتا۔ کیا عجب پھر اس صورت میں بنک، روٹی قرضہ سکیم، جاری کرتے۔ یعنی لوگ آسان قسطوں پر قرضہ لیتے، پھر اس سے روٹی خریدا کرتے۔ یعنی آپ کسی کو پچاس ڈنڈے مار کے اس کی ہڈی پسلی ایک کر دیں۔ پھر ہاتھ روک کر کہیں کہ مزید پچاس مارتا تو تم مر جاتے۔ میں نے تمہیں مزید پچاس ڈنڈے نہ مار کر تباہی اور موت سے بچا لیا ہے۔ ٭٭٭٭٭سو روزہ کارکردگی پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خوب لتے لے رہی ہیں۔ حکمران جماعت سوائے اس کے کہ ہمارے سو دن دوسری جماعتوں کے پچاس ہزار دنوں سے بہتر ہیں۔ کچھ نہیں کہہ پا رہی۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز نظر سے یہ کارکردگی دیکھ رہا ہے۔ اقتصادی اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پچاس ہزار دنوں والی بات میں کوئی زیادہ مبالغہ نظر نہیں آتا۔ یعنی ملک بننے سے لے کر اب تک ایسی کارکردگی اب تک برآمد نہیں ہوئی تھی، اب بہرحال برآمد ہو گئی ہے۔ مثلاً غیر ملکی سرمایہ کاری میں 55فیصد کمی والا نکتہ اکیلا ہی یہ پچاس ہزار دنوں پر بھاری ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی شرح تو جاری سونامی سے ہی جانچی جا سکتی ہے، برآمدات مزید کم، درآمدات مزید بڑھ گئیں۔ ڈالر انوکی اور روپیہ اکی پہلوان بنا دیا گیا۔ سٹاک مارکیٹ کھڑک سنگھ بن کے رہ گئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر بڑھنے کے بجائے اور کم ہو گئیں (سنا تھا کہ خاں صاحب کی حکمرانی آتے ہی بیرون ملک پاکستانی ڈالروں کی بارش کر دیں گے لیکن پتہ نہیں کیوں انہوں نے تو ہاتھ پہلے سے بھی روک لیا) غریبوں کے جتنے مکان، جھونپڑے اور دکانیں ان تین ماہ میں گرائے گئے، پہلے کبھی تین سو سال میں بھی نہیں گرائے تھے۔ شاید بے گھری دور کرنے کے لیے پہلے گھر گرانا، بے روزگاری سے نجات کے لئے روزگار چھیننا ضروری ہے یعنی علاج بالمثل۔ ابھی سو روز پورے ہوئے ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، اگر دیکھنے کو کچھ بچ گیا تو۔ ٭٭٭٭٭ابک خبر میں ہے کہ وزیر اعظم نے تین ماہ میں چار غیر ملکی دورے کئے جن پر 63کروڑ روپے خرچ آئے۔ وہ تو وزیر اعظم نے سادگی اور بچت کی مہم چلا رکھی ہے اس لئے "کم" خرچہ ہوا، ورنہ اس سے زیادہ کے اخراجات بھی ہو سکتے تھے۔ وہ مہنگی وی آئی پی، بزنس کلاس ٹکٹ لینے کے بجائے سادہ سا سستا جہاز ہی بک کرا لیتے ہیں۔ 63کروڑ خرچ کے عوض ملا بھی تو بہت کچھ، اتنا کچھ کہ بتایا ہی نہیں جا سکتا اور چونکہ بتایا ہی نہیں جا سکتا اس لئے کوئی بتا بھی نہیں رہا اور بتائے گا بھی نہیں، بس اسی "بے زبانی" کو کافی سمجھئے۔ ٭٭٭٭٭فضل الرحمن نے شکوہ کیا ہے کہ نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والے بھارت سے راہداریاں کھول رہے ہیں۔ مولانا شکوے چھوڑیے، ریاست اپنی 70سالہ تاریخ میں پہلی بار کوئی ڈھنگ کا کام کر رہی ہے تو کرنے دیجئے۔ مطالبہ تو یہ کیجئے کہ ایک راہداری مونابائو کھوکھرا پار والی بھی کھول دیجئے جو 1965ء تک کھلی ہوئی تھی اور حب الوطنی کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی سبک رفتار شہادتوں سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر تیزی سے "حل" ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی راہداریاں کھلنے کا موسم آ رہا ہے۔