Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jehad Se Jehad Tak

Jehad Se Jehad Tak

محترم حافظ سعید نے فرمایا ہے کہ عالم اسلام کے مسائل جہاد سے حل ہوں گے۔ جہاد ایک مقدس فریضہ ہے لیکن اس سے مسئلے کس طرح حل ہوں گے؟ شاید کوئی رمز ایسا ہو گا جو تاریخ اور شریعت کی کتابوں میں تو نہیں ہے، حافظ صاحب کو معلوم ہو گا۔ عالم اسلام کے مسائل ان گنت ہیں، غربت، بیروزگاری، جعلی خوراک، جعلی دوائیں، جرائم، ناخواندگی، آمریت، اشرافیہ کا استحصال، بہتر ہوگا حافظ صاحب بتا دیتے کون سا مسئلہ کس ملک پر حملہ کرنے سے حل ہو گا۔ جہاد امریکہ کے خلاف تو ہو نہیں سکتا۔ وہ ہمارا قبلہ اول و آخر، قاضی الحاجات، مائی باپ اور صاحبِ ڈومور ہے۔ فی الحال بھارت سے بھی جہاد نہیں ہو سکتا کہ اس کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ بھارت میں امریکی سفیر نے اطلاع دی ہے کہ پاکستان افغان بھارت تجارت کے لیے راہداری دینے پر راضی ہو گیا ہے۔ اطلاع سامنے آئے ہفتہ بھر ہو گیا ہے اور تردید بھی نہیں آئی ہے چنانچہ اسے ٹھیک ماننے میں کچھ غلط نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ اچھا اقدام ہے، تردید کرنا مناسب بھی نہیں۔ اور اس میں "رسک" یعنی کسی قسم کا اندیشہ ضرر بھی نہیں۔ کیونکہ اندیشے مودی کے یار کی وجہ سے تھے۔ وہ نہیں رہا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خطرہ مودی نہیں تھا، اس کے یار سے تھا۔ ٭٭٭٭٭جہاد کیا ہے، کب کیا جاتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے، یہ سب کچھ قرآن اور حدیث اور اسوۂ حسنہ میں درج ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ یعنی عوام اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ جس کی وجہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں لگتی کہ ان تینوں "ماخذانِ اساسی" کے مطالعے یا ان کا علم حاصل کرنے کی ہم کچھ زیادہ حاجت نہیں سمجھتے، چنانچہ اگر کچھ سمجھنا ہو تو شارٹ کٹ کے طور پر علمائے کرام سے ایک مختصر سی دو طرفہ ملاقات کافی رہتی ہے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ بھی کہ ماخذان اساسی پر اتفاق رائے کے باوجود جہاد سمیت ہر مسئلے پر ہر مکتب فکر کے علما کی تشریح اور رائے الگ الگ ہے، کبھی کبھار تو رائے میں بعدالمشرقین کا فرق بھی آ جاتا ہے۔ ایک نکتے کی بات یہ بھی ہے کہ عباسی دور سے علماء کی ایک نادر قسم کی جو پنیری لگی تھی، وہ آج باغ و بہار بن چکی ہے۔ دربارانِ دُربار کے یہ دُرہائے نایاب دین کی تشریح ہر دور میں مزاج شاہی کو خیال میں رکھتے ہوئے کرتے آ رہے ہیں۔ اب تو اس میں بھی ترقی ہو گئی ہے۔ تشریح کی ذمہ داری ریاست نے اپنے سر لے لی ہے۔ علماء کا ذمہ صرف سہولت کاری کا رہ گیا ہے۔ چنانچہ ریاست جو کہے، اسی کو حرف حق اور قول فیصل ماننا پڑتا ہے۔ اس نے کہا، یہ جہاد ہے۔ ہم نے جہاد مان لیا۔ اس نے کہا، نہیں، یہ جہاد نہیں، دہشت گردی ہے، ہم نے دہشت گردی مان لیا۔ اس نے کہا، بھارت سے حساب چکانا ہے، ہم نے کہا، بالکل چکانا ہے۔ اس نے کہا، بھارت سے اچھی ہمسائیگی کرنی ہے، ہم نے کہا بالکل کرنی ہے۔ ٭٭٭٭٭حافظ سعید نے جسے جہاد کہا، وہ قتال ہے اور قتال جہاد ہی کی ایک قسم ہے۔ جہاد کا دائرہ وسیع ہے اور یہ ہر وقت جاری رہتا ہے، قتال خاص حالتوں میں فرض ہے۔ قتال ہو یا جہاد، فی سبیل اللہ کی شرط ہے۔ لیکن ہماری تاریخ ایک شخص کے مفاد کو بھی فی سبیل اللہ لکھتی رہی ہے۔ گو خاصی پرانی بات ہو گئی لیکن اتنی پرانی بھی نہیں۔ صدر ایوب خاں نے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابی نتائج بدل کر شکست دے دی۔ عوام فاطمہ جناح کے حامی تھے۔ چنانچہ فضا میں غصہ پل رہا تھا اور ابلنے کو تھا۔ ایوب خاں سیانا آدمی تھا۔ معاملہ دبانے کے لیے اس نے جبرالٹر کے نام سے ایک آپریشن کا کھاتہ کھول لیا۔ پاک بھارت جنگ ہو گئی۔ مشکل کا حل پھر تاشقند میں نکلا۔ بعد میں کسی نے ایوب خاں سے نہیں پوچھا کہ اپنے فائدے کے لیے ملک کا نقصان کیوں کرا دیا۔ ملک ٹوٹنے کی بنیاد ڈال دی اور پھر ملک ٹوٹ گیا۔ بھٹو صاحب کی حکومت آ گئی وہ عوام کو تاشقند کی پٹاری کھولنے کا لالچ دے کر الیکشن جیتے تھے۔ انہوں نے بھی ایوب سے باز پرس نہیں کی۔ ٭٭٭٭٭ضیاء الحق مرحوم کے دور میں تین تین جہاد ہوئے۔ امریکہ نے افغان جہاد کے "مقاصد" پورے ہونے کے بعد ضیاء الحق کو مروا دیا۔ باقی دونوں معاملے چلتے رہے۔ پھر پہلے خالصتان کا باب سکھوں کی فہرستیں بھارت کو نیک خواہشات کے ساتھ پہنچا کر بند کر دیا گیا۔ کشمیر والا معاملہ مشرف کے دور میں ختم ہوا۔ امریکہ جو چاہتا تھا۔ وہ اس نے پا لیا۔ سوویت یونین ختم ہو گیا اور بھارت بھی راہ راست پر آ گیا یعنی اس کے "مدار" میں داخل ہو گیا۔ ہمیں کیا ملا؟ کشمیریوں کو کیا ملا؟ اور بھارت کے 20کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا۔ اب اتنے برس ہو گئے، نفع و نقصان کا کل میزان حافظ صاحب کے سامنے بھی ہے، جناب علی گیلانی صاحب کے بھی اور ہم آپ، سب کے سامنے بھی۔ ٭٭٭٭٭ایک تازہ جہاد حال ہی میں انجام کو پہنچا۔ وہ جو کرپشن یعنی نواز شریف کے خلاف کیا گیا اور فتح سے ہمکنار ہوا۔ نواز شریف وہی مرد معزول جو قوم کا تین ہزار کروڑ روپیہ چوری کر کے لے گئے تھے۔ اس "فتح" کی تفصیل فاتح وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی تقریر میں بتائی جو انہوں نے گزشتہ روز ایوان میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے فرمائی۔ تقریر کیا تھی، نوحہ تھی۔ فرمایا پچھلے تین ماہ میں ہر شے پر زوال آیا۔ کیا روپے کی قیمت، کیا سرمایہ کاری، کیا قیمتوں کا استحکام، کیا زرمبادلہ کے ذخائر، کیا برآمدات، کیا یہ اور کیا وہ۔ یہ نہیں بتایا کہ یہ سب اسی جہاد چہار سالہ کا"مال غنیمت" ہے آپ نے نہیں بتایا، چلو ہم نے بتا دیا۔ نرالی بات یہ ہے کہ یہ مال غنیمت قوم کو سمیٹنا پڑ رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭چلیے، جہاد کا قصہ کوتاہ کرتے ہیں۔ ذائقہ بدلنے کے لیے صدر صاحب کا ارشاد تازہ ملاحظہ کیجئے۔ فرمایا، نئے پاکستان کی پہچان سادگی ہے۔ بہت خوب فرمایا لیکن فرمانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ سادگی کے مظاہرے قوم دیکھ رہی ہے اور آنکھیں مل مل کر دیکھ رہی ہے، بہتے تو ساتھ ہی ہاتھ بھی ملتے ہوئے دیکھے گئے۔ دراصل یہ پہنچے ہوئے بزرگوں کی شاہی آ گئی ہے۔ پہنچے ہوئے بزرگ جو فرماتے ہیں، اس کے معنی بعد میں سمجھ آتے ہیں۔ مثلاً جب فرمایا کہ فرسٹ کلاس میں نہیں جائیں گے تو مطلب تھا پورا جہاز لے جائیں گے۔ بالکل "بروبر" بات ہے۔ سالم جہاز میں کوئی فرسٹ کلاس ہوتی ہے نہ بزنس۔ جب فرمایا کہ سونامی لائیں گے تو مطلب تھا مہنگائی کا سونامی اور جو یہ فرمایا کہ رلائوں گا تو۔ اب پتہ چلا کہ کسے رلانے کی بات تھی۔ جب کہا کہ وی آئی پی کلچر ختم کریں گے تو مطلب تھا وی، وی آئی پی کلچر لائیں گے۔ فرمایا کہ ہماری حکومت میں باہر سے لوگ نوکری کرنے پاکستان آئیں گے۔ دعویٰ کیسا ٹھیک نکلا۔ غیر ملکی شہری پاکستان آ کر نوکری"لے" رہے ہیں۔ ارے بھئی، کابینہ کی وزارت نوکری ہی تو ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ موصوف پر نیب کے مقدمات ہیں، اب نیب کیا کرے گا۔