Kal Yug
Abdullah Tariq Sohail79
بس ایک ہی دن پہلے فضا کچھ اور تھی، اچانک سے کچھ اور ہو گئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیانات کا جو تبادلہ ہوا ہے، اس سے جنگ کی سی فضا بن گئی ہے۔ پہل بھارت نے کی جب اس کے آرمی چیف نے پاکستان کو مزا چکھانے کی بات کی۔ جواب میں ادھر سے بھی شدید ردعمل گیا۔ خیر، یہ دو چار دن کی بات ہے۔ جنگ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا۔ لیکن انتخابات سے پہلے بی جے پی جیسی فضا چاہتی تھی، ویسی اسے مل گئی۔ بھارت میں بے جے پی کو بھاگیہ وان جتھہ کہا جاتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے یہ پارٹی فائدہ اٹھا لیتی ہے۔ 70برس میں بھارت کیا سے کیا ہو گیا۔ شروع میں یہ گاندھی جی کا بھارت تھا۔ یعنی مسلمانوں کے خون کے پیاسے بہت تھے لیکن غلبہ انہیں کو تھا جو گاندھی کی بات مانتے تھے۔ گاندھی مسلمانوں کو ان کا پورا نہ سہی، تھوڑا ہی سہی، حق دینے کے حامی تھے۔ جب کبھی مسلم کش فسادات(غلط العام فرقہ وارانہ فسادات) ہوئے، گاندھی مرن برت رکھ لیتے تھے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ سنگھ پریوار کے لوگ اگر پانچ ہزار مسلمانوں کے قتل کا ہدف لے کر سڑکوں پر آتے تو اس مرن برت کی کی وجہ سے ہزار دو ہزار لاشوں پر ہی گزارا کر لیتے۔ گاندھی کو مارابھی اسی لیے گیا کہ وہ ملیچھوں یعنی مسلمانوں کے لیے تھوڑا نرم دل رکھتا تھا۔ گاندھی کے بعد یہ اندرا گاندھی کا ملک بن گیا جو پاکستان کی دشمن تھی۔ وہ مسلمانوں کو پسند نہیں کرتی تھی لیکن انہیں برداشت بہرحال کر لیتی تھی۔ اب یہ گاندھی کا بھارت ہے نہ اندرا گاندھی کا۔ اب یہ بسنتی یا بھگوی آندھی کا ملک ہے جو پاکستان سے بھی نفرت کرتا ہے اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں سترہ اٹھارہ یا اس سے بھی زیادہ مسلمان موجود ہیں، ان سب سے کلیان ملے تو کیسے ملے۔ بی جے پی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن اکثریتی نہیں۔ یعنی مل ملا کر اکثریت وہی بنتے ہیں جو بی جے پی کے مخالف ہیں۔ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہندو سارے کے سارے مسلمانوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے کہ ایک ملک سارے کا سارا ایک ہی خیال کا ہو جائے۔ اسرائیل چھوٹا سا ملک ہے۔ ستر اسی لاکھ یہودی ہیں۔ ان میں بھی لاکھوں ایسے مل جائیں گے جو فلسطینیوں کے حق میں جلوس نکالتے ہیں۔ پھر بھارت میں ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ تبدیلی البتہ یہ آئی ہے کہ بی جے پی کا فلسفہ ایک کٹر گروہ کو پسند تھا جو اقلیتی تھا، اب اس کی طاقت بڑھ گئی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ خطرہ ہے کہ کہیں وہ اکثریتی نہ بن جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں تشدد بڑھ رہا ہے۔ بھارتی فوج ہر روز چار پانچ کشمیری اوسطاً شہید کر رہی ہے، کئی کو زخمی۔ نوجوانوں پر بری طرح تشدد کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بھارت کے اندر ایک عجیب متضاد نتیجہ نکل رہا ہے۔ یعنی یہ کہ بی جے پی کے مخالف اور حامی دونوں ہی مضبوط ہو رہے ہیں۔ مخالف یہ سمجھ کر کہ یہ ظلم قابل قبول نہیں، بی جے پی کے اور بھی مخالف ہو رہے ہیں اور حامی یہ سمجھ کر مسلمانوں کا (کشمیریوں کا بالخصوص) یہی علاج ہے۔ وہ بی جے پی کی حمایت میں اور زیادہ سخت ہو رہے ہیں۔ دونوں گروہ طاقت پکڑ رہے ہیں۔ حتمی نتیجہ الیکشن پر ہی آئے گا۔ ٭٭٭٭٭بھارت کی ریاست اترکھنڈ (اتر نچل پردیش) نے گائے کو راشٹریہ ماتا کا ٹائٹل دے دیا ہے یعنی یہ ساری ریاست (مطلب جسے ہمارے ہاں صوبہ کہا جاتا ہے)کی ماں ہے۔ غیر رسمی طور پر تو گائے سارے بھارت، سارے ہندو دھرم کی ماتا ہے لیکن رسمی یعنی قانونی درجہ دینے والی یہ پہلی ریاست ہے۔ یہاں ایک بات یاد آ رہی ہے۔ دنیا بھر میں گائے بھینس کا سب سے زیادہ چمڑا بھارت ہی برآمد کرتا ہے یعنی کھال جس سے پھر جوتے، پرس، جیکٹ اور نہ جانے کیا کیا بنتا ہے۔ یہ ساری گائے بھینسیں بھارت ہی میں ذبح ہوتی ہیں لیکن ذبح کرنے والے مسلمان نہیں، خود ہندو ہوتے ہیں۔ شہر سے باہر یہ کارخانے لگے ہیں، ہزاروں لاکھوں گائیں اور بھینسیں کٹتی ہیں اور سنگھ پریوار کے لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ہے نا چمتکار کی بات۔ بہرحال، یہ ابتدا ہے، اب دوسری ریاست میں بھی گائو ماتا کو یہ درجہ دیا جا سکتا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ عملاً تو یہ درجہ دیا بھی جا چکا ہے اور لازمی نہیں کہ صرف اسی مسلمان کو مارا جائے جو گائے کو ذبح کرنے کا دوشی ہو، آسانی سے یہ کہہ کر بھی مارا جا سکتا ہے کہ اس مُسلے نے گئو ماتا کو میلی نظر سے دیکھا تھا، بھلے سے وہاں کوئی گائے موجود ہی نہ ہو۔ اتر کھنڈ کا نام قدرے اجنبی لگتا ہے۔ بہت لوگ سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ صوبہ کون سے علاقے میں ہے۔ حالانکہ یہ مشہور ترین بھارتی صوبے اتر پردیش(یو۔ پی) ہی کا حصہ تھا، کچھ برس پہلے الگ ہوا۔ اس کے شہر بھارت کے معروف ترین شہروں میں شامل ہیں مثلاً مسوری، نینی تال، دھرہ دون کے علاوہ وہ شہر جو شکار اور جنگلوں کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں جیسے گڑھوال، چمپا دت وغیرہ۔ یہیں ہندوئوں کی پوتر ترین استھان اور تیرتھ بھی ہیں۔ ایسے استھان اور تیرتھ ویسے تو یو پی میں کئی گنا زیادہ اور بھارت بھر میں سب سے زیادہ ہیں لیکن اتراکھنڈ کا امتیاز یہ ہے کہ دیوی دیوتائوں کی رہائش یہیں ہوا کرتی تھی اور یہیں سے شیو مہاراج کی جتائوں سے گنگا پھوٹتی ہے۔ یہاں کے پوتر تیرتھوں میں ہر ہندو ایک بار لازماً آتا ہے مثلاً اتر کاشی، ہر دوار، بدری ناتھ، کیدار ناتھ۔ اسی علاقے میں پاربتی دیوی کا ڈیرہ بھی ہے اور کیلاش پربت بھی۔ اسی ریاست کے ایک دشوار گزار علاقے میں ایک بڑا دلچسپ اور عجیب مقام ہے جسے پاتال بھبھنیشور کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع ہتھوڑ گڑھ کے گائوں بھبھنیشورکے پاس ایک چونے کا زیر زمین غار ہے۔ سطح سے تقریباً سو فٹ نیچے یہ ایک طرح سے مندر بھی ہے۔ یہاں چونے کے کٹائو اور قلموں (کرسٹلز) سے عجیب و غریب مناظر، نقش و نگار اور ان گھڑبتوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں یاتری لاکھوں کی تعداد میں نہیں آتے لیکن آتے ہیں۔ پہاڑی اور مشکل علاقہ ہے، پھر غار میں داخلے کے لیے ایک تنگ دروازہ ہے۔ ایک وقت میں ایک آدمی ہی اندر داخل ہو پاتا ہے۔ یہاں کی چھت پر ایسی قدرتی نقش گری ہے جیسے کہکشاں کی تصویر ہو۔ ہندو اسے برھمانڈ مانتے ہیں یعنی برھما کی بنائی کائنات۔ ہندوئوں کے بنیادی اور پرانے عقیدے کے مطابق برھما ایک اکیلا خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور جس نے سارا برھمانڈ اور پرتھوی بنائی۔ برھمانڈ والی چھت کے نیچے پرتھوی ہے اور اس میں جابجا ان گھڑبت اور کونے کھدرے ہیں۔ ہندو انہیں مشہور دیوی دیوتائوں کے بت اور ہندوستان کے بڑے بڑے مندروں کا ماڈل مانتے ہیں۔ ایک طرف لاکھ سے زیادہ کرسٹلز چھوٹے چھوٹے بتوں کی شکل میں ہیں لیکن پجاریوں کا کہنا ہے کہ یہ پورے 33کروڑ دیوی دیوتا ہیں۔ کتابوں کے مطابق دیوی دیوتائوں کی تعداد 33کروڑ ہے اگرچہ پوجا جن دیوتائوں کی ہوتی ہے وہ سو سے بھی کم ہیں اور سارے مندر انہی کے نام کے ہیں۔ برھمانڈ کے ایک کونے میں سطح زمین اوپر کو اٹھی ہوئی ہے۔ اور محض تین فٹ درمیان میں رہ جاتی ہے۔ یہاں زمین سے ایک کرسٹل اوپر کو نکلا ہوا ہے۔ ستون کی شکل میں ہندو عقیدے کے مطابق یہ "کل یُگ لِنگ"ہے یعنی آخری زمانے کا ستون۔ عقیدہ یہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھ رہا ہے اور جس روز یہ چھت (برھمانڈ) سے جا ملا۔ کل یگ ختم ہو جائے گا اور قیامت آ جائے گی۔ یہ ڈیڑھ فٹ اوپر اٹھ چکا ہے۔ باقی ڈیڑھ فٹ کی مسافت رہ گئی ہے۔ کل یُگ دنیا کے آغاز سے اب تک چوتھا اور آخری زمانہ ہے۔ تین زمانے گزر چکے۔ کل یگ لڑائی جھگڑے کا دور ہے، یہ 3102قبل مسیح شروع ہوا اور 6896ء کو سمات ہو جائے گا۔ گویا کیلنڈر اور لنگ، دونوں کے مطابق آدھا زمانہ ختم ہو گیا۔ قیامت آنے میں اب بھی لگ بھگ پونے چار ہزار سال باقی ہیں۔ بھارت ورش کو مسلمانوں سے پاک کرنے میں گویا ابھی بے حساب وقت باقی ہے، پھر ابھی سے اتنی جنگی تیاریاں کیوں۔ ویسے ان انتہا پسندوں کو یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ اسی کل یُگ میں کریُگ بھی ہے یعنی جیسا کرے گا، ویسا پائے گا۔ بلکہ کہنا تو یوں چاہیے کہ عکل یگ نہیں، کریُگ ہے یہ!