Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ker Dikhane Ka Agenda

Ker Dikhane Ka Agenda

سرکار نے فرمائش کی ہے کہ تین ماہ تک اسے کچھ نہ کہا جائے۔ اس پر بعض کا ردعمل یہ ہے کہ ایسا مطالبہ کرنا ان کا حق ہے۔ کچھ نے تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ آج تک دنیا کی کسی جمہوری حکومت نے اس طرح کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ اپنی طرز کی انوکھی اور منفرد مثال ہے لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ فرمائش کی ہے تو اس کے پیچھے کچھ تو حکمت اور دانش ہو گی۔ بتانے والے بتاتے ہیں اور بتانے والے ایسے ویسے نہیں ہیں خاصے معتبر ہیں کہ اس بیچ آزادی صحافت کو چین اور شمالی کوریا کی طرح کے معیار پر لے جانے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا کو بھی صراط مستقیم پر لایا جائے گا۔ تنقید کرنے والے ناپید ہو جائیں گے۔

اخبارات کے راوی چین ہی چین لکھیں گے اور ٹی وی پر ہر طرف امن و سکون کے خطبے سنائی دیں گے۔ چنانچہ حکمت یہ ہے کہ تین مہینے تو آپ خود بھی چپ رہو۔ تین مہینے کے بعد ہم آپ کو چپ کرا دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجوزہ منصوبہ کتنا کامیاب ہوتا ہے۔ کتنا نہیں، بظاہر بہت مشکل ہے لیکن دیکھا جائے تو اب پاکستان میں کچھ بھی مشکل نہیں رہا۔ جہاں پولنگ کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کے بغیر ممکن ہو جائے وہاں کیا ہے جو پھر ممکن نہیں رہتا۔ ویسے آزادی صحافت باقی رہی ہی کتنی ہے، دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ خبر ندارد، شاہانہ پروٹوکول خبر بدستور ندارد۔

٭اس دوران بیک وقت کئی سیاستدانوں کا ایک ہی مضمون کا بیان آیا ہے یہ کہ عوام سو دن کی کارکردگی کے منتظر ہیں وہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ جس ایجنڈے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا ہونا چاہیے۔ ان سیاستدانوں کو مطمئن رہنا چاہیے۔ ایجنڈے پر عمل لازماً ہو گا اگرچہ اس ایجنڈے پر نہیں جس کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ تو دکھانے کا تھا۔ کر دکھانے کا ایجنڈا کچھ اور ہے اور اس کے بہت زیادہ نکات ہیں۔ کچھ تو لکھے بھی نہیں جا سکتے۔ جو لکھے جا سکتے ہیں ان میں ایک تو وہی ہے جس پر کئی لکھنے والے لکھ چکے اور بات اشاروں کنایوں سے بڑھ چکی۔ خود سرکار نے اپنی فرمائش والی بریفنگ میں بات واضح کر دی۔ فرمایا جو معاہدے قومی مفاد کے خلاف ہیں انہیں منسوخ کر دیں گے۔ اسی سانس میں فرمایا سی بیک کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اب سمجھنے کو کیا رہ گیا۔

دیگر نکات میں ریلوے کا معاملہ ہے۔ سٹیل ملز اور پی آئی اے کی آخری رسومات والے نکات بھی ہیں۔ کھاد بہت مہنگی کر دی گئی ہے لیکن ارزانی ہنوز والا معاملہ ہے۔ اس کی مہنگائی ابھی اور ہو گی تاکہ کسی خوش بخت ترین کی بھلائی ہو جائے۔ آزاد امیدواروں کو قید انصاف میں لانے کا محنتانہ تو ان چند ہفتوں میں اربوں کے حساب سے وصول ہو چکا، پرانی خدمت گاری کا عوضانہ ابھی باقی ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے اقتصادی نکات ہیں اور کچھ سیاسی بھی۔ نواز شریف پر مزید مقدمات بنیں گے۔ شہباز شریف کو بھی گوشہ نشین کرنا ہے۔ حمزہ شہباز کو آگے لانا ہے کہ سرکار کے بھی منظور نظر ہیں اور اس سرکار کے بھی جو سرکار جی کی بھی سرکار ہے۔ ایجنڈے کے نکات اب تک ڈھکے چھپے تھے لیکن اب اتنے بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ کچھ کو خبر ہو گئی، باقی کو سو دنوں میں ہو جائے گی۔ پروٹوکول کے معاملے میں شاہ ایران پر بازی لے جانے کا"ایجنڈا " بھی ہے۔ دیکھتے جائیے۔

٭ریلوے کا ایجنڈا شیخ جی نے واضح فرما دیا ہے، کراچی میں فرمایا اس کی زمینیں فالتو ہیں بیچ ڈالیں گے۔ ہر دو طرح کی سرکار میں رسائی رکھنے والے ایک اینکر، تجزیہ کار نے نہ جانے کس ترنگ میں آ کر اس کی رازکشائی بھی کر دی۔ لکھا کہ اراضی پراپرٹی اور بلڈرز مافیا کو بیچی جائے گی۔ خریداروں کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے۔ زمین کوڑیوں کے بھائو بہرحال نہیں بیچی جائے گی، قدرے زیادہ بھائو پر دی جائے گی۔ پھر خریدار چاہے اس اراضی پر پام کلب بنائیں یا ٹام کلب، فلیٹ بنائیں یا پلازے، شادی ہال بنائیں یا جم خانے۔ ریلوے کو انجام بخیر تک پہنچانا دو شہیدوں کا خواب تھا۔ ایک مردہ شہید، دوجا زندہ شہید۔ یعنی ضیاء الحق اور پرویز مشرف۔ ضیاء الحق مردہ شہید اس لیے کہ اب ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں۔

مشرف زندہ شہید اس لیے کسی فرد یا افراد کو ان کا نام گستاخی سے لینے کی جرأت تک نہیں اور شیخ جی ان دونوں شہیدوں کے اکلوتے وارث ہیں۔ نواز شریف کسی زمانے میں مردہ شہید کے وارث ہوا کرتے تھے۔ پھر وراثت سے دستبردار ہو گئے۔ دونوں شہیدوں نے ریلوے کی ارتھی اٹھانے کا جو ڈول ڈالا تھا اب وہ پورا ہونے والا ہے۔ آج ٹرینیں فالتو ہیں، ماشاء اللہ کل پٹریاں بھی فالتو ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ آج کے جوان کل کو بڈھے ہو جائیں گے پھر پوتے پوتیوں کو ٹرینوں کی تصویریں دکھایا کریں گے کہ دیکھو بچو، یہ چیزیں کبھی ہمارے ہاں ہوتی تھیں اب افغانستان میں ہوتی ہیں۔

٭شیخ جی صاحب کراچی پہنچے تو سٹی ریلوے سٹیشن پر غیر اعلانیہ کرفیو لگا دیا گیا۔ سارے مسافر نکال باہر کئے گئے، جو کھڑکی پر ٹکٹ لینے کھڑے تھے۔ وہ بھی کھڑے کھڑے نکال دیے گئے۔ ایسا ہی ہفتہ بھر پہلے لاہور ریلوے سٹیشن پر ہوا تھا۔ اسے بھی یکے از تبدیلی ہائے معاملات سمجھئے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا بہرحال سکیورٹی، سکیورٹی ہے۔ وہ ہے تو ملک بھی ہے، نہیں تو ملک بھی نہیں۔ اسی روز یا ایک آدھ دن آگے پیچھے ہمارے کل ہونے والے صدر مملکت عارف علوی پشاور پہنچے تو وزیر اعلیٰ ہائوس میں ان کے لیے کھانے کی ایک سادہ ضیافت کی گئی۔ تمام سات ڈشیں از حد سادہ تھیں۔ حتیٰ کہ مٹن کڑاہی بھی سادہ، افغانی پلائو بھی سادہ، پینے کے لیے سادہ منرل واٹر اور دو طرح کے سادہ کولڈ ڈرنک۔ ضیافت کے بعد شرکاء نے جو سگریٹ سلگائے وہ بھی سادے تھے۔ ہمارے وزیراعظم خود بھی سادہ کھانا پسند فرماتے ہیں اور راویوں کو تو چلیے چھوڑیے ان کے ذاتی صوفیائے کرام اپنے کالموں میں قارئین کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ اٹھتے ہی ایک یا دو سادہ دیسی مرغیوں سے انصاف کرتے ہیں۔ دیسی ہرن کی سادہ ران پسند فرماتے ہیں ایک وقت میں دو چار سے زیادہ ڈشیں نہیں کھاتے اور سب کی سب سادہ اکثر مرغابی بھی کہ بہت مرغوب ہے، البتہ وہ دیسی نہیں ہوتی، اتردیشوں سے اڑی آتی ہے اور معدوں میں اتر جاتی ہے۔ صوفیائے کرام کے بقول وزیراعظم سرکاری دن میں ہر دو گھنٹے بعد قلیل الطعام، ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں بہرحال جو بھی کھاتے ہیں سادہ ہوتا ہے اور کھاتے بھی بہت سادگی سے ہیں۔ اس طرح کی قلیل الطعامی تصوف جدیدہ کے لیے ازحد مفیدہ سمجھی جاتی ہے۔

٭سرکار نے اپنی تین مہینے والی فرمائش جس اجلاس میں کی اسی میں یہ بھی کہا کہ امریکہ کی کوئی غلط بات نہیں مانیں گے۔ برحق بات کی۔ پرویز مشرف یاد آ گئے۔ وہ بھی امریکہ کی کوئی غلط بات نہیں مانتے تھے صرف ٹھیک بات مانتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے کبھی کوئی غلط مطالبہ کیا ہی نہیں، جب بھی کیا، ٹھیک ہی کیا۔ ایک خاتون فرما رہی تھیں پتہ نہیں یہ دوسری مائوں کو کیا ہو گیا ہے اپنے بچے کی غلطی کبھی مانتی ہی نہیں بچوں کی اتنی طرف داری انصاف نہیں۔ میں تو اپنے بچے کی ہر غلطی کھلے دل سے مان لوں لیکن وہ کوئی غلطی کرے تو نا?چنانچہ۔ امریکہ کی غلط بات ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور براہ کرم خیال رکھیے۔ جلال آباد میں قونصل خانہ بند کرنے کا امریکہ کی کسی غلط بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

٭پاکستان نے دانشمندانہ اعلان کیا کہ اب امریکی وزیر پومپیو سے ہمارے وزیراعظم کی گفتگو کا تنازع بند سمجھا جائے اس پر اور کوئی بات نہیں ہو گی۔ تنازعہ یہ تھا امریکہ نے کہا پومپیو نے دہشت گرد اڈے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ امریکہ نے پھر کہا ایسی بات ہوئی ہے۔ ہم نے پھر کہا نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد امریکہ خاموش ہو گیا اور گفتگو کی ٹیپ ہمیں بھجوا دی۔ اس پر ہم بھی خاموش ہو گئے۔ خاموشی دانشمندی ہے۔ پاکستان نے دانشمندی ہی کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے بھارت سے کی گئی بات پر بھی بعدازاں ہم نے دانشمندی دکھائی پھر فرانس کے صدر کا فون آیا ہم نے سننے سے انکار کیا۔ فرانس نے وضاحت کی وہ تو سفارتی فون تھاکہہ کر پھر دانشمندی دکھائی۔ بہت ہی دانشمند دور ہے۔ ہر نیا دن نئی دانش مندی لے کر آتا ہے۔