Mashriqi Punjab Kion Bata
Abdullah Tariq Sohail93
یادش بخیر، ایوب خاں نے ملک میں دس سال تک "ترقی" کا اودھم مچانے کے بعد عشرہ ترقی منایا تھا، خاں صاحب نے سو روزہ جشن ترقی شروع کر دیا ہے۔ دراصل وقت تیز رفتار ہو گیا ہے۔ دس سال کا سفر اب سو دن ہی میں طے ہونے لگا ہے۔ پشاور کی تقریب جشن میں وزیر اعلیٰ پختونخواہ کا خطاب اچھا تھا۔ فرمایا، میں بولتا بہت کم، کام زیادہ کرتا ہوں۔ بعض لوگوں نے اسے خودستائی سمجھا حالانکہ وہ "کسی "اور کو مشورہ دے رہے تھے کہ کام کریں نہ کریں، بولا کم کریں۔ یہ مشورہ کسے دیا گیا تھا؟ کچھ واضح نہیں ہو سکا۔ خاں صاحب تو "مشورہ الیہ" نہیں ہو سکتے، وہ تو پہلے ہی اپنی کم گوئی کے لئے مشہور ہیں۔ ہفتے بھر میں بس دوچار بار، بہت ہوا تو پانچ چھ بار قوم سے خطاب پر گزارا کر لیتے ہیں۔ واضح رہے آج کل قوم سے خطاب کے لئے پی ٹی وی جا کر "قومی پرچم والی میز پر تشریف فرما ہونے کا تکلف ضروری نہیں۔ بس کسی بھی تقریب میں، کہیں بھی خطاب کر دیا، لائیو نشریات اسے قوم سے خطاب کا درجہ دے دیتی ہیں۔ پھر کم گو خاں بھی اتنا لمبا خطاب کرتے بھی نہیں۔ بس ڈیڑھ دو گھنٹے میں اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔ اسی کو شاعری میں ایجاز گوئی کہتے ہیں بلکہ آج کل تو اعجاز گوئی کہنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭خاں صاحب نے خطاب میں فرمایا، پشاور دنیا کا سب سے قدیم زندہ شہر ہے۔ اچھا کیا جو بتا دیا ورنہ بہت سے لوگ تو دمشق کو قدیم ترین زندہ شہر سمجھتے ہیں اور اس کے بعد اجودھیا کو۔ عالمی تاریخ لکھنے والے ادارے امید ہے اپنا ریکارڈ درست کر لیں گے۔ خاں صاحب نے پرانے سستے درد کی یاد بھی تازہ کی۔ فرمایا، میرے والد کی تنخواہ اتنی تھی کہ ایک تنخواہ میں کار آ جاتی تھی اور ستر تولے سونا خریدا جا سکتا تھا۔ واقعی بھئی، سستے زمانے کے کیا کہنے۔ صدر مملکت کی کرسی پر تشریف فرما عارف علوی صاحب بھی گواہی دے چکے ہیں کہ تب محض پچاس ہزار روپے رشوت دینے پر ٹیلی فون لگ جاتا تھا، ٭٭٭٭٭صحافت کے اہل قلم حضرات بھی دو قسم کے واقع ہوئے ہیں۔ ایک قدرے بے خبر، دوسرے نامطلوب حد تک باخبر۔ بے خبری کی مثال دیکھئے، قارئین کا بڑا حلقہ رکھنے والے ایک کالم نویس نے اپنے کالم میں گویا حرف آخر کے طور پر یہ لکھا ہے :"میری درخواست ہے کہ تمام ادارے اکٹھے بیٹھیں اور ملک میں کام کرنے، ترقی اور ڈیلیوری (بمعنی نتیجہ خیز کارکردگی) پر پابندی لگا دیں۔ ملاحظہ کیجئے، ترقی کا یہی عمرانی ڈاکٹرائن تو ہے جو خاں صاحب نے آتے ہی نافذ کر دیا تھا۔ جو شے نافذ ہوئے چار مہینے ہونے کو آئے، یہ قلمکار صاحب اس کے نفاذ کی اب تجویز دے رہے ہیں۔ اب وقت ایسی تجویزیں دینے کا نہیں ہے، ترقی کے اس ڈاکٹرائن کی خلاف ورزی کہیں ہو رہی ہو یعنی ترقی وغیرہ تو اس کی رپورٹ کرنے کا وقت ہے۔ ابھی تو سو دن ہوئے ہیں ہفتے اور مہینے گزرنے دیجئے۔ ٭٭٭٭٭ضرورت سے زیادہ، باخبر مضمون نگار نے کہ الیکشن کمشن کے سابق عہدیدار ہیں، کمال کی اطلاعات دی ہیں۔ موصوف سرکاری افسر رہے ہیں، لازمی بات ہے، اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ہو گی، فرماتے ہیں بھارت کے بارہ کروڑ سکھ مشرقی پنجاب کو مغربی پنجاب میں ضم کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بہت خوشی کی خبر ہے۔ پاکستان کی سرحدیں دور تک پھیل جائیں گی۔ لیکن مسئلہ اتنا سا ہے کہ بھارت میں کل سوا دو کروڑ یعنی دو کروڑ سے 25لاکھ زیادہ سکھ ہیں۔ یہ باقی کے دس کروڑ کی گنتی پورا کرنے کی ذمہ داری شاید موصوف مضمون نگار ہی کو اٹھانی پڑے۔ مزید فرمایا، بھارت نے سکھوں کی طاقت کمزور کرنے کے لئے آزادی کے بعد مشرقی پنجاب کے تین ٹکڑے کر دیے۔ اب تاریخ کی درستگی بہت لازم ہو گئی۔ مشرقی پنجاب کو تقسیم کرنے کا مطالبہ خود سکھوں نے کیا تھا اور 1950ء میں پنجابی صوبے کی تحریک چلائی تھی کیونکہ مشرقی پنجاب میں سکھ اقلیت تھے اور صوبہ تقسیم نہ کیا جاتا تو سکھ حکومت سے بے دخل رہتے۔ تحریک کی قیادت اکالی دل نے کی اور 16برس بعد یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ یکم نومبر 1966ء کو نئے صوبے بن گئے۔ سکھ خاصی چھوٹی اقلیت تھے۔ یعنی محض 33فیصد آج کے اعداد و شمار ملاحظہ ہوں، اس سے اندازہ ہو جائے گا۔ مشرقی پنجاب، آبادی پونے تین کروڑ۔ سکھ 57فیصد، ہندو39فیصد، مسلمان پونے دو فیصد۔ ہریانہ: آبادی اڑھائی کروڑ۔ ہندو 88فیصد، مسلمان 7فیصد، سکھ 5فیصد۔ ہماچل پردیش آبادی 70لاکھ۔ ہندو 95فیصد، مسلمان سوا دو فیصد، سکھ ایک فیصد۔ یعنی مشرقی پنجاب آج متحد ہوتا تو سکھ دو کروڑ، ہندو چار کروڑ اور مسلمان پندرہ بیس لاکھ ہوتے۔ سکھوں کو وزارت اعلیٰ تو کیا ملتی، کابینہ میں بھی بس ایک تہائی سے کم حصہ ملتا اور آج جو سکھ صوبہ مشرقی پنجاب کے نام سے ہے، اس میں بھی سکھ بھاری اکثریت نہیں ہیں۔ یعنی 60فیصد بھی نہیں ہیں۔ 39، 40فیصد ہندوئوں کی حمایت اور بھارت پسند سکھوں کی مدد سے بی جے پی نے الیکشن جیتا۔ بھارت پسند سکھوں سے مراد کاروباری اور ملازمت پر سکھ ہیں جو بھارت میں اپنے لئے مواقع کو بہتر سمجھتے ہیں۔ زراعت پیشہ سکھ بھارت کو پسند نہیں کرتے، موقع ملے تو آزاد ہونا پسند کریں گے۔ 1990ء کی دہائی میں خالصتان تحریک کے پیچھے یہی زراعت پسند آبادی تھی۔ یاد ہو گا، بھارتی فوج اور پولیس نے جو قیامت ڈھائی تھی، وہ شہروں میں کم اور دیہات میں زیادہ ٹوٹی تھی۔ ہزاروں دیہاتی نوجوان اس کریک ڈائون میں ہلاک کر دیئے گئے۔ لیکن شہری سکھ ہندوئوں کے فطری اتحادی ہیں اور ان کا ایک حصہ بی جے پی کا پرجوش حامی ہے اور مسلمانوں سے گریزاں ہے۔ شاید انہیں مغلیہ تاریخ دوسروں سے زیادہ یاد ہے۔