Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Masla Kashmir Ab Masla Nahi Raha

Masla Kashmir Ab Masla Nahi Raha

بھارت کے آرمی چیف نے کہا ہے کہ آئندہ سے بھارتی فوج کشمیریوں کو پتھر کا جواب گولی سے دے گی۔ دے گی کا کیا مطلب، وہ دے رہی ہے اور آپ کے حکم پر ہی دے رہی ہے۔ ہر روز درجن بھر کشمیری مارے جا رہے ہیں، ان میں سے کتنوں کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے۔ آپ کی فوج تو جو پتھر نہ مارے، اسے بھی گولی مار رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے مثال ہیں، گولی پتھر کیا، وہ کنکر تک نہیں مار سکتے، انہیں بھی گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ آپ یوں کہئے، ہر کشمیری کو گولی کا تحفہ دیں گے۔ ایک دو رات پہلے کسی چینل پر ایک مبصر صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بھارت کشمیر میں نسل کشی کر رہا ہے، اس پر دنیا کی خاموشی حیرت ناک ہے۔ حیرت ناک قطعی نہیں، یہ خاموشی معنی خیز ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ معنی دنیا بھر کے لوگوں سمجھ گئے، ہم نہیں سمجھ سکے اور کشمیر پر ہمارے بے معنی بیانات پھر بھی جاری ہیں۔ معنی خیز کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کشمیر کا مسئلہ اپنے طور پر اب "حل شدہ" سمجھ رہی ہے اور کشمیریوں کی تحریک کو بغاوت مان رہی ہے۔ بغاوت میں ہلاکتوں پرکوئی نہیں بولتا، سبھی چپ رہتے ہیں، اسی لئے چپ ہیں۔ یہ بھارت کی کامیابی ہے یا ہماری ناکامی، جو بھی سمجھ لیں۔ سچ یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کو "بغاوت" کچلنے کا خاموش لائسنس دے دیا ہے۔ بھارت انہیں بھی مار رہا ہے جو سرکاری دستوں پر حملے کرتے ہیں، جنہیں ایک زمانے میں ہم مجاہدین کہا کرتے تھے، اب کیا نام دیا ہے، پتہ نہیں اور انہیں بھی مار رہا ہے جو کوئی حملہ نہیں کرتے، صرف نعرہ لگاتے ہیں بلکہ جو نعرہ نہیں لگاتے، انہیں بھی مار رہا ہے۔ مبالغہ بالکل نہیں، پورا پورا سچ ہے کہ بھارت اب نسل کشی پر آمادہ ہے۔ کچھ کو مارے گا، کچھ کو زخمی کرے گا، باقی کو خوفزدہ اور پھر باہر سے لوگ لائے گا جس کے بعد کشمیری اپنے ہی وادی میں "اقلیت" بن جائیں گے، لو بھئی، اب کرالو رائے شماری اگر کرانا ہے۔ کشمیری کمزور ترین پوزیشن پر آ گئے ہیں۔ کوئی اسلامی کانفرنس، کوئی عرب لیگ ان کے حق میں پہلے کی طرح نہیں بولتی۔ یورپی برادری کی انسانی حقوق والی لغت سے کشمیری خارج ہو گئے۔ پاکستان سے کشمیریوں کو اب کوئی "عملی" مدد نہیں ملتی اور ہم خود اس بات کا "کریڈٹ" لیتے ہیں کہ اب پاکستان کی سرزمین سے کوئی کراس بارڈر دہشت گردی ہو رہی ہے نہ ہونے دیں گے۔ جہاد کشمیر قصہ ماضی ہوا، کراس بارڈر دہشت گردی پر ہم نے کراس لگا دیا۔ کشمیری تنہا اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی طرح جو لڑتے لڑتے غزہ کی تنگ گلی میں بند ہو گئے۔ کشمیر (مقبوضہ) اتنا بڑا علاقہ نہیں جتنا نقشے میں دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں۔ یہ محض "وادی" ہے جہاں کشمیری آباد ہیں۔ باقی علاقے میں ہندو اکثریت کا جموں ہے۔ بودھ اکثریت کا علاقہ لیپہ، لداخ ہے، برف میں دبے ویران علاقے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا آباد علاقہ، پاکستان کے آزاد کشمیر سے ذرا ہی بڑا ہو گا۔ بس ایک کم چوڑی پٹی ہے اور گنتی کے شہر۔ اتنے چھوٹے علاقے میں جہاں پر بیچ پہاڑی سلسلے ہیں نہ گھنے، دشوار گزار جنگل، حریت پسندوں کے چھپنے کے لئے بہت کم جگہ بچتی ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے انٹیلی جنس سسٹم بہتر بنا لیا ہے۔ صبح کو کوئی حریت پسند کسی تھانے یا چوکی پر حملہ کر کے جنگلوں میں جا چھپتا ہے تو بھارتی جاسوس دوپہر سے پہلے اور کچھ واقعات میں اگلے روزتک ان کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے برعکس، حالیہ مقابلوں میں حریت پسندوں کا جانی نقصان زیادہ ہے۔ بھارتی فوج حریت پسندوں کو مار کر چپ نہیں بیٹھ جاتی، جس محلے سے ان کا تعلق ہو، ان کا رخ کرتی ہے اور دو چارہلاکتوں کا تحفہ دے جاتی ہے۔ پرویز مشرف نے بھارت کو کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کی اجازت دے کر جہاد آزادی کی کمر توڑ دی۔ مشرف اس پوزیشن میں تھا کہ یہ اجازت نہ دیتا۔ لیکن اس نے دی۔ ایک موقع واجپائی کے دور میں ملا تھا، کارگل کی نذر ہو گیا۔ جن حضرات نے ماضی قریب کا دور دیکھا ہے، جانتے ہیں کہ 1960ء کی دہائی کے شروع میں، سوویت بلاک کو چھوڑ کر ساری دنیا کشمیر پر پاکستان کی حامی تھی۔ مسلمان ملکوں میں ملایشیااور مصر کے سوا سبھی ہمارے ساتھ تھے۔ 1965ء میں مادر ملت کو جعلی شکست دے کر ایوب خاں عوامی بے چینی کی زد میں آ گئے۔ دو سال سکون سے نکل گئے(1967ء کے آخر میں تحریک کی لہر اٹھی، دو سال بعد استعفیٰ دینا پڑا) یہ تو ہوا لیکن ساتھ ہی کشمیر کاز کو پہلی کاری ضرب بھی لگی۔ عالمی سطح پر ہمارا کیس کمزور ہو گیا۔ ضیاء الحق نے مسئلے کے حل کے لئے جہاد کا آپشن چنا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس جہاد سے عالمی سطح پر ہمارا کیس اور کمزور ہوا اور یہ خیال اتنا غلط بھی نہیں لیکن زیادہ غل یہ ہوا کہ بعدازاں، خالصتان کی طرح کشمیر مہم بھی بیچ میں چھوڑ دی گئی۔ نانی خصم والا پنجابی محاورہ یاد آ رہا ہے۔ جہاد کشمیر کی بساط مشرف نے لپیٹ دی۔ ساری نہیں لیکن آدھی۔ باقی آدھی بعد میں لپیٹی گئی۔ کنٹرول لائن پر باڑ لگ گئی اور "کراس بارڈر دہشت گردی" کا باب بھی ختم ہوا۔ باڑ لگنے اور "جہاد" سے ہماری لاتعلقی کے بعد کشمیر گھر گئے، محصور ہو گئے اور تنہائی میں چلے گئے۔ سقوط کشمیر ہونا نہیں تھا لیکن ہم نے کر دیا۔ اب لکیر پیٹنے کا مرحلہ چل رہا ہے لیکن لکیر بھی سب کہاں پیٹ رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کو کشمیر سے زیادہ، اہم بات یہ لگتی ہے کہ افغان مسئلے میں بھارت سے تعاون لیا جائے۔ وزیر اعظم کو مودی سے کوئی مسئلہ نہیں، مودی کے بارے البتہ ہے۔ کشمیر سے انہیں کیا دلچسپی ہو گی، ان کی ساری دلچسپی 18ویں ترمیم کا مسئلہ حل کرنے میں ہے۔ چلئے، کشمیر تو بھارت کا ہوا ہی، افغانستان میں بھی اسے اس کا "جائز" حق دینے کی تیاری ہے۔ خدا کی شان ہے۔ خدا حافظ کشمیریو۔ بارڈر نرم ہونے والے ہیں، پھر بالمشافہ ملاقات ہو گی، اگر ہوئی تو…!