Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mat Mol

Mat Mol

چند روز پہلے کی بات ہے، ایک خبر کی سرخی میں "متّمول" کا لفظ پڑھا۔ بے ساختہ کچھ برس پہلے کی ایک بات یاد آ گئی خبر تو ضمنی الیکشن کے حوالے سے تھی کہ متمول علاقوں میں تحریک انصاف کا بہت زور ہے۔ پرانی بات یہ ہے کہ ایک چینل پر نیوز ریڈرز کسی خبر میں متمول کے لفظ کو مت۔ مول پڑھ رہا تھا۔ پہلے تو ہنسی آئی، پھر خیال آیا کہ ریڈر ٹھیک ہی ہے۔ متمول کا لفظ ایسا "عسیر الادا" ہے کہ بہت سے لوگ اٹک جاتے ہیں۔ شاید اس نے لسانی اجتہاد سے کام لیا ہے۔ آخر شاعر حضرات بھی تو شعر میں وزن پورا رکھنے کے لیے بہت سے الفاظ کی شکل بدل ڈالتے ہیں اور اسے ضرورت شعری کا نام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نظریہ ضرورت کا تو کیا خرابی ہے اگر نثر میں بھی نظریہ ضرورت لاگو کر لیا جائے۔ خاص طور پر ایسے مشکل الفاظ کے لیے جیسا کہ یہ متمول ہے۔ ایسے لفظوں سے خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کو زیادہ پرہیز کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس لیے کہ ان کے دانت کمزور ہوتے ہیں، ایسے الفاظ پڑھنے سے دانتوں پر زور پڑتا ہے اور ان کی نشو و نما متاثر ہو سکتی ہے۔ بڑوں کو اس لیے کہ اکثر تو ان کے دانت بھی نہیں ہوتے اور ہوتے ہیں تو مصنوعی بتیسی کی شکل میں۔ ڈی۔ ٹیچ۔ ایبل۔ ابھی چند روز ہوئے، ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا۔ کوئی بی اپنی سالگرہ منا رہی تھیں۔ کیک پر جلتی موم بتی بھجانے کے لیے پھونک ماری، موم بتی بدستور بقید حیات رہی۔ دوسری بار زور سے پھونک ماری تو بتیسی نیچے آ گری۔ اور موم بتی کو اپنی آغوش میں حمائل کر لیا۔ چنانچہ اگر اس لسانی مجتہد کا اجتہاد مُق۔ تدرا۔ اے قومی زبان والے قبول فرمائیں تو نہ صرف متمول کو مت مول لکھا اور پڑھا جائے بلکہ بہت سے دوسرے مشکل الفاظ کے ہجے بھی تبدیل کر دیے جائیں۔ مق۔ تدرا کو کچھ بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ یہ خدمت 36عدد ٹی وی چینلز کے نیوز ریڈروں (اور بہت سی حالتوں میں اینکر پرسنز) سے بلا معاوضہ لی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭رپورٹر کی خبر بہرحال ٹھیک تھی اور اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت بنے دو مہینے پورے ہو گئے اور بھی ٹھیک ہو گئی ہے۔ جملہ مت مول علاقے روز اول سے تحریک انصاف کا ووٹ اور نوٹ بنک ہیں۔ بیچ میں کچھ مڈل اور لوئر کلاس کے لوگ بھی اس کے حامی ہو گئے۔ لیکن یہ حمایت عارضی تھی۔ اب انہوں نے خلع حاصل کر لیا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار تحریک انصاف کو کارپوریٹ اشرافیہ کی جماعت سمجھتے ہیں۔ یہ بات جزواً درست ہے۔ کلی سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی جملہ اشرافیہ طبقات کی جماعت ہے۔ فیوڈل اشرافیہ ہو، کارپوریٹ اشرافیہ ہو یا بیورو کریٹ اشرافیہ۔ سبھی تحریک انصاف کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ اور بیورو کریٹ اشرافیہ کو آپ سہل نہ لیں۔ ان کے فارم ہائوس، اندرون ملک اور اوورسیز بنگلے اور فلیٹ ہوں۔ زرعی رقبے ہوں، پلاٹ اور پلازے ہوں۔ سب اکٹھا کریں تو اتنی مالیت بنتی ہے کہ سیاستدان تو ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کارپوریٹ اشرافیہ میں بلڈرز اور لینڈ مافیا بھی آ جاتی ہے۔ صد فیصد نہ سہی۔ 90فیصد تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ روایتی قدامت پسند مرکنٹائل طبقہ کی اکثریت مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ سندھ کے وڈیرے نصفا نصف کے حساب سے پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے(تحریک انصاف کی نظریاتی اتحادی) کے ساتھ ہیں۔ آنے والے برسوں میں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ یہ نو طاقت یافتہ کارپوریٹ اور روایتی فیوڈل، بیورو کریٹ اشرافیہ عوامی رائے کا مقابلہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ جواب کے آثار اگلے چند مہینوں میں ڈرامائی تبدیلیوں کے ساتھ واضح ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭پنجاب کے بجٹ میں بھی، وفاقی بجٹ کی طرح نوازشات کی ریوڑیاں مت۔ مول طبقات ہی کو بانٹی گئی ہیں۔ بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن بس ایک آدھ سے ہی ریوڑیوں بھری پرات کا اندازہ کر لیں۔ ایک ہزار سی سی کی یعنی چھوٹی گاڑی پر ٹوکن فیس 10سے بڑھا کر پندرہ ہزار کر دی گئی ہے اور اسی طرح موٹر سائیکل کے ٹوکن میں بھی اضافہ کر کے پندرہ سو کر دیا گیا ہے جبکہ مت۔ مول حضرات کو کمال فراخدلی سے رعایت دی گئی ہے۔ ان کی امپورٹڈ لگژری گاڑیوں کی درآمد پر لگژری ٹیکس 70ہزار سے کم کر کے 15ہزار، دو ہزار سی سی کی گاڑیوں پر بھی ٹیکس ایک لاکھ 25ہزار روپے سے کم کر کے صرف 25ہزار(ایک لاکھ کی رعایت) کر دیا گیا ہے۔ جو ٹیکس دو لاکھ کا تھا۔ اسے بھی ایک لاکھ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر ماشاء اللہ خود بھی مت مول شخصیات ہے۔ چنانچہ بجٹ میں ان کے ہائوسز کے اخراجات میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پچھلے بجٹ میں یہ رقم 19کروڑ 82لاکھ تھی۔ اب 60کروڑ سے زیادہ رقم خاص کی گئی ہے۔ عمران خان کی بات یاد آئی، کفایت شعاری کے لیے وزیروں کے خرچے کم کرنے ہوں گے۔ وزیروں کے اخراجات میں محض 25فیصد اضافہ کیا گیاہے۔ ظاہر ہے، وہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی سطح کے مت۔ مول تو نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کی کفایت شعاری والی بات جیسے باقی ہر جگہ یاد آتی ہے کہ یہاں بھی آئی اور بے اختیار آئی۔ ٭٭٭٭٭گرفتار قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں لایا گیا۔ جہاں انہوں نے خوب خطاب کیا۔ نیب اور تحریک انصاف کے لیے، سنا ہے، خاصا اعصاب شکن رہا۔ انہوں نے نیب پی ٹی آئی اتحاد کو "ان ہولی" قرار دیا جس پر اعتراض ہے۔ دونوں مقدس ہیں، پھر ان کا اتحاد غیر مقدس کیسے ہو گیا۔ ایک انکشاف بھی فرمایا۔ کہا کہ نیب والوں نے انہیں کہا، آپ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ آپ خواجہ آصف کے خلاف گواہی دے دیں۔ معلوم ہوا کہ خواجہ آصف جلد ہی جیل جانے والے ہیں۔ فواد حسین وزیر اطلاعات ویسے یہ خبر اشاروں میں پہلے ہی دے چکے ہیں۔ خواجہ آصف کو کس کیس میں پکڑا جائے؟ یہ ابھی طے نہیں ہو سکا۔ زرداری حکومت میں خواجہ صاحب نے ایوان کے اندر ایک زبردست تقریر کی تھی اور پرویز مشرف کی بڑی گرم جوشی سے مزاج پرسی(غائبانہ) کی تھی۔ لگتا ہے اب اس مزاج پرسی کا شکریہ وصول کرنے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ ٭٭٭٭٭انسان کے اندر کی اعصابی خلیاتی کشمکش، دنیا بھر میں طبقاتی کشمکش۔ عالمی جنگیں۔ گوریلا جنگیں، معاشی جنگیں، نظریاتی جنگیں، سائنس کی دریافتیں، فلسفے کے دریافت یا وضع کردہ قاعدے کلیے، حیوانات کی محدودیت، انسانی دماغ کی "محدود لامحدودیت" لبرلزم، سیکولرازم، مذہبی حقیقت، یورپ میں کیا ہوتا ہے اور امریکہ میں۔ وسط ایشیا کے کیا رنگ ہیں، افریقہ کے کیا۔ جو خدا کو نہیں مانتے، انہیں کیسے سمجھائیں کہ خدا ہے۔ اخلاق کیا ہے۔ مزاج کیا اور طبیعت کیا۔ موسم بدلتے ہیں تو سوچ بھی بدل جاتی ہے۔ خیالات کا ایسا متنوع ذخیرہ عجیب و غریب ہے کہ نہیں؟ جس کتاب میں ان خیالات کو ایک مباحثانی ناول کی شکل میں سمویا گیا ہے، اس کا نام بھی عجیب و غریب ہے۔ تو سنئے، اس ناول کا نام بس ایک لفظ کا ہے اور وہ ہے "ھے""ھے"بہت عجیب نام ہے اور اس سے عجیب تر اس کے مواد کی بو قلمونی اور ایک ہی سکیلر، ویکٹر پر اس کی روانی ہے۔ ناول کے مصنف فیاض محمود ادیب کے علاوہ عمرانیات و بشریات کے ماہر کے طور پر معروف ہیں۔ دارالنو ادر اردو بازار کی شائع کردہ"ھے" پچھلے دنوں نظر سے گزری تو یہ ایک نیا تجربہ محسوس ہوئی۔