Misali Nizam Ki Wapsi
Abdullah Tariq Sohail70
پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر خان صاحب کو الیکٹ کے بجائے سلیکٹ وزیر اعظم قرار دیا ہے اور تحریک انصاف کے ایک سینیٹر نے ان کے بیان کی تصدیق کر دی ہے۔ سینیٹر موصوف نے فرمایا ہے کہ ہم گیس اور بجلی مہنگی کریں گے چاہے تحریک انصاف کی مقبولیت صفر پر آ جائے۔ !وجہ انہوں نے مشکل معاشی صورتحال کو بنایا ہے۔ محترم سینیٹر صاحب پتہ نہیں پارٹی کی ترجمانی کے مجاز ہیں یا نہیں لیکن ترجمانی خوب کر دی بلکہ حق ترجمانی ادا کر دیا۔"چاہے مقبولیت صفر پر آ جائے گی"کی بات تو واللہ جواب ہی نہیں۔ ویسے سینیٹر صاحب پارٹی مقبولیت تو ایک ہی مہینے میں اتنی بلند ہو گئی ہے کہ تحت الثریٰ تک پہنچ گئی ہے۔ معاف کیجیے گا قارئین، اوج ثریا لکھنا چاہتا تھا، غلطی سے تحت الثریٰ لکھ دیا۔ خیر اب تو غلطی ہو گئی۔ بلاول کے بیان کی تصدیق انہوں نے کیسے کی ہے۔ ملاحظے فرمائیے۔ ایسا بیان وہی پارٹی دے سکتی ہے یا ایسی سوچ وہی پارٹی رکھ سکتی ہے جو الیکٹ نہ ہوئی ہو بلکہ اسے سلیکٹ کیا گیا ہو اور اسے یہ گمان ہو کہ جواس بار لائے، وہ اگلی بار بھی لے آئیں گے، عوام سے یا عوامی مقبولیت سے ہمیں کیا لینا دینا۔ یہ الگ بات ہے کہ لانے والے ایک حد تک ہی بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد اٹھاپھینکتے ہیں۔ اور پھر پھینکنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ بہرحال، بلاول کو مبارک ہو، دوپہر کو انہوں نے بیان دیا، شام کو سینیٹر موصوف نے تصدیق کر دی۔ ٭٭٭٭٭پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں لیگی ایم پی اے ثوبیہ شاہد نے ایک قرار داد پیش کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انیل مسرت بھارتی شہری ہے اور بھارتی آرمی چیف کا بھتیجا بھی۔ اس لیے اسے آئندہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک نہ کیا جائے، نیز زلفی بخاری برطانیہ کے شہری ہیں، انہیں وزارت کیوں دی گئی ہے، واپس لی جائے۔ قرار داد بس برائے قرار داد ہے، منظوری کجا، اس پر بحث بھی متوقع نہیں لیکن ایم پی اے صاحبہ کو جو غلط فہمی ہو گئی ہے، اس کا ازالہ از بس کہ ضروری ہے۔ چنانچہ عرض ہے کہ انیل مسرت چاہے جہاں کے بھی شہری ہوں۔"محب وطن" وہ پاکستان کے ہیں اور اتنے بڑے محب وطن کہ انہیں کابینہ کے اجلاس میں بلا کر بھی خراج تحسین پیش کرنے کا حق ادا کیا جا سکتا تھا۔ جس طرح امریکہ افغانستان اور عراق میں تعمیر نو کی ذمہ داری پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح سے انیل مسرت کو دست قدرت نے پاکستان میں تعمیر نو کے لیے منتخب یعنی"سلیکٹ"کیا ہے۔ وہ پچاس لاکھ گھر بنائیں گے اور غریبوں میں بانٹیں گے۔ انہیں نہ صرف کابینہ کے اگلے بلکہ ہر اجلاس میں بلایا جانا چاہیے۔ چنانچہ ان کا یہ مطالبہ مسترد کیا جاتا ہے۔ رہی زلفی بخاری کی بات تو ایک بات یہ ہے کہ وہ بھی پاکستان کی "محب الوطنی" میں انیل صاحب سے کوئی زیادہ پیچھے نہیں۔ جب 19، 20کا فرق نکل آئے تو نکل آئے" اس سے زیادہ نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ "ایم آئی" کے سٹیشن ایجنٹ اگر کسی دوسرے ملک کے صوبے کے دو دو بار گورنر بن سکتے ہیں تو عام برطانوی شہری وزیر مشیر کیوں نہیں بن سکتا۔ اب برائے خدا، آئین کی کسی شق کا حوالہ مت دے ڈالئے گا۔ شق کا استعمال موزوں موقع اور محل پر ہوتا ہے۔ اور زیر نظر موقع و محل کسی بھی شق کے لیے قطعی نا موزوں ہے۔ ٭٭٭٭٭محترم نیب صاحب نے فرمایا ہے کہ عالمی انڈکیشن میں پاکستان کرپشن میں 116ویں نمبر پر آ گیا ہے اور یہ ہماری کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ ارے نیب صاحب، یہ رپورٹ جو آپ نے جاری فرمائی ہے۔ پچھلے برس کی ہے اور اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ سابق کرپٹ حکومت کو جاتا ہے۔ اب آپ دو کام کیجیے۔ ایک تو یہ کہ جس اہلکار نے یہ رپورٹ آپ کو نئی بتا کرپیش کی ہے، اس کے خلاف آئینی کارروائی کریں۔ کوئی مناسب ساآرٹیکل اس پر لگا دیں۔ دوسرا یہ کیجیے کہ ترنت بھارت کے دورے پر تشریف لے جائیے اور نواز شریف نے جو اربوں کھربوں ڈالر بقول آپ کے وہاں ڈمپ کر رکھے ہیں، ڈھونڈ کر لائیے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، سعودی عرب نے سنی ان سنی کر دی ہے۔ اب تو یہی ایک چارہ ہے، برطانیہ میں پڑے دو سو ارب ڈالر کے معاملے پر سے تو اسد عمر صاحب نے ہاتھ اٹھا دیے، ٭٭٭٭٭شہنشاہ معظم نے فرمایا کہ ہمیں بلدیاتی نظام کو 1960ء کی دہائی جیسا مثالی بنانا ہے۔ 1960ء کی دہائی سے مراد ایوب خاں کا زمانہ اور ان کا بی ڈی سسٹم ہے۔ مثالی کے معنی ابھی دریافت طلب ہیں۔ ایوب دور کے مثالی نظام پر ایک کتاب صدیق الحسن گیلانی کی بڑی مشہور ہوئی تھی۔ اب تو نایاب ہے لیکن تب بہت پڑھی گئی تھی۔ نام تھا"ترقی اور افلاس" اسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس بی ڈی سسٹم نے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کو"سلم" ایریاز میں بدل دیا تھا۔ شہنشا معظم گزشتہ کئی برسوں سے ایوب خاں کی تعریف کر رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ بات تو ان کے "دور ترقی" میں ہو گی۔ حبیب جالب نے اگر اسے سیاہ دور کہا ہے تو انہیں غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ بعض ناداں قسم کے عناصر یہ بھی کہتے ہیں کہ موصوف وطن فروش تھے۔ ظاہر ہے یہ بدظنی بھی بے بنیاد تھی۔ صرف تین دریا بھارت کو بیچ دینے سے کوئی وطن فروش تھوڑی ہو جاتا ہے۔ ماننا پڑے گا کہ وہ دور خوبی کا تھا۔ اور خوبی تلاش کرنی پڑے گی۔ لیجیے، خوبی مل گئی۔ دوسری خوبی اس دور ایوبی میں یہ تھی کہ غیر مستحق لوگوں سے دولت چھین کر بائیس مستحق گھرانوں میں محفوظ کی گئی۔ دولت"قیمتی" شے ہے۔ جو لوگ اسے رکھنے کے اہل نہیں، ان کے پاس اسے رہنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ فریضہ ایوب خاں نے ادھورا چھوڑ دیا، ان کے بعد پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے انجام دیا لیکن کرپٹ نواز شریف نے اپنے چار برسوں میں ہر دو حضرات کے کئے کرائے پر قدرے پانی پھیر دیا۔ ٭٭٭٭٭دبئی میں موجود "رشک کمر" کے مسائل حل یا ختم کرنے کے لیے حکومت درپردہ سرگرم ہو چکی ہے۔ آتے ہی سب سے پہلا کام جو کیا گیا، وہ یہ تھا کہ رشک کمر کے وکیل کو جو غداری کیس میں سنہری خدمات سرانجام دے چکے ہیں، وفاقی وزیر قانون بنا دیا گیا۔ اب کچھ مزید اقدامات ہو رہے ہیں۔ ایک اور وزیر صاحب "اشارۃً" کہہ چکے ہیں کہ مشرف پر کیس چلانا ہماری ترجیحات میں نہیں۔ لیکن کچھ قانونی الجھنیں ایسی آ پڑی ہیں کہ اگر "مرشدی" کو وطن لے آتے ہیں تو مسئلہ بن جائے گا۔ مسئلے کا حل آساں ہے۔ حکومت اٹھارہویں ترمیم کو لپیٹنے تو جا رہی ہے۔ (اس بارے میں اب کوئی شبہ نہیں ہے، موزوں گھڑی کا انتظار ہے)تو آرٹیکل 6کو بھی اسی لپیٹے میں لپیٹ دیا جائے۔ مسئلہ حل، نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔ آرٹیکل 6ختم ہوتے ہی کیسا کمر درد، کہاں کا سردرد۔