Mohajir Ittehad Se Inteshar Tak
Abdullah Tariq Sohail72
کراچی میں مہاجروں کی کسی نئی تنظیم کے قیام کے لیے سرگوشویوں میں صلاحمشورے جاری ہیں۔ کچھ ملاقاتیں دبئی میں سابق گورنر عشرت العباد سے بھی ہوئی ہیں۔ مہاجروں کا اتحاد جو ساڑھے تین عشرے پہلے قائم ہوا تھا، اب لخت لخت ہے اور اردو بولنے والے ووٹر عملاً اپنے حق رائے دہی سے دستبردار ہو چکے ہوں۔ ایسے میں پھر سے اتحاد کا خواب دیکھنے کا خیال اتنا بے جا بھی نہیں ہے۔ ضرور کوشش کر لی جائے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ وہی حال ہو گا جو بین المسلمین اتحاد کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ہوا کرتا ہے بلکہ اب تو ایک مسلک کے اندر اتحاد کی کوشش بھی اتحاد کے بجائے مزید انتشار کا باعث بن جاتی ہیں۔ کچھ اصحابِ درد سرگرم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارے مسلک کے لوگ 60تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ انہیں پھر سے اتحاد کی لڑی میں پرو دیا جائے۔ اجلاس ہوتے ہیں، مذاکراتی وفود ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور انجام کار 60تنظیمیں 61بن جاتی ہیں۔ بین المسلمین اتحاد کے لیے سرگرمیاں کامیاب ہوتی ہیں تو کچھ برسوں بعد پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں ایک کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کے مہاجر پہلے لسانی بنیاد پر نہیں سوچتے تھے۔ ان کی بھاری اکثریت مذہبی جماعتوں کے ساتھ تھی۔ باقی ماندہ میں کچھ قوم پرست جماعتوں (جیسے کہ مسلم لیگ) کے حامی تھے۔ لبرل اور بائیں بازو کے لوگ بہت کم تھے۔ جب ان کے متحد ہو کر ایک ہی جماعت، ایم کیو ایم سے وابستہ ہونے کی کرامت ظہور میں آئی تو ذیلی کرامت یہ تھی کہ یہ سارے مذہبی اور قدامت پرست لوگ راتوں رات لبرل اور روشن خیال ہو گئے۔ ایم کیو ایم"بزرگوں " کی عنایات سے پارہ پارہ ہو گئی لیکن مذہبی جماعتوں کو ان کا ووٹر واپس نہ ملا۔ مہاجروں نے ٹھان لی کہ ووٹ سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پولنگ کا دن ان کے لیے جبری چھٹی کا دن ہوتا ہے جسے وہ گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی ڈرامے دیکھنے میں گزارتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭متحدہ قومی موومنٹ کی تشکیل کسی کے اشارے پر نہیں ہوئی تھی۔ مہاجر نوجوانوں نے خود اس کی بنیاد رکھی تھی اور اس کی فوری وجہ بھٹو صاحب کی پالیسیاں تھیں۔ جن کا نقصان مہاجر آبادی بھگت رہی تھی۔"مہاجر سوچ" محدود حد تک پہلے ہی موجود تھی جس کی بنیاد 1965ء میں ایوب خاں نے رکھی تھی۔ کراچی کے مہاجروں نے باجماعت محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیا تھا لیکن صدارتی انتخابات کے نتائج تبدیل کر کے ایوب خاں کو جتوا دیا گیا۔ اس کے بعد مہاجروں کی شامت آ گئی۔ لیکن پھر ایوب خان کے خلاف چلنے والی ملک گیر تحریک نے "مہاجر سوچ" کو زیادہ پنپنے نہیں دیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں اس سوچ کو فروغ ملا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ایم کیو ایم پہلے طلبہ تنظیم(اے پی ایم ایس او) کے روپ میں سامنے آئی۔ عوامی مقبولیت ہو اور ریاستی حالات بھی "ساز گار" بنا دیے جائیں تو ایسی تحریکیں طاقت پکڑ لیتی ہیں۔ ضیاء الحق اور ان کے ساتھی دوسرے بزرگ سندھیوں کو خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے سندھ میں "توازن" کے لیے سازگاری کا سازو سامان متحدہ کو مبہم پہنچایا اور دیکھتے ہی دیکھتے طاقتور سے طاقتور ہوتی گئی۔ ضیاء الحق اپنی اتحادی جماعت اسلامی کی کراچی شاخ سے بہت دکھی تھے۔ لگے ہاتھوں اسے بھی سبق سکھانا چاہتے تھے۔ غوث علی شاہ کی مدد سے انہوں نے جماعت اسلامی کی بلدیاتی طاقت ختم کر دی اور ایم کیو ایم پر علانیہ دست شفقت رکھ دیا۔ کراچی میں لسانیت کا عروج غوث علی شاہ کو بھی خوب راس آیا۔ ضیاء الحق 1988ء میں طیارے کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کے بعد "بزرگوں " نے متحدہ کے لیے ایک نیا قومی مفاداتی کردار چنا اور متحدہ بھی ہنس ہنس کر یہ کردار نبھاتی رہی۔ ہر منتخب حکومت کو روانہ کرنے کے لیے متحدہ کو استعمال کیا جاتا۔ متحدہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی۔ جونہی مجلس بزرگان حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرتی، متحدہ اس سے الگ ہو جاتی۔ متحدہ ایک "پاور سوئچ" بن گئی۔ ادھر پلگ نکالا، ادھر حکومت فیوز۔ مشرف نے متحدہ کو کراچی کے عوام کی جان و مال کا مالک بنا دیا اور اسے فرقہ وارانہ اور نسلی قتل عام کے لیے استعمال کیا۔ دسیوں ہزار لوگ مارے گئے۔ سب سے نمایاں جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد پر ہونے والا واقعہ رہا۔ متحدہ کہتی ہے، یہ قتل عام جس میں 50سے زیادہ لوگ مارے گئے، ہم نے نہیں کیا، یہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے کسی اور نے کیا۔ کسی اور سے کیا مراد تھی؟ کیا پرویز مشرف؟ جس نے قتل عام کی شام راولپنڈی کے جلسے میں شجاعت و پرویز کو بغل میں دبا کر بھنگڑا ڈالا اور اس قتل عام کو "اپنی " قوت کا مظاہرہ قرار دیا۔ اگر یہ قتل عام سراسر مشرف نے کیا تھا تو پھر متحدہ اس کے بعد بھی مشرف کی حمایت کیوں کرتی رہی؟ وردی اتارنے کے مطالبے کا مذاقجتنا برادران گجرات نے اڑایا، اتنا ہی الطاف حسین نے بھی اڑایا۔ ٭٭٭٭٭مشرف کی رخصتی کے بعد متحدہ کے برے دن آ گئے۔ وجہ یہ بنی کہ 2014ء کے دھرنے میں اس نے تبدیلی والوں کے مطالبے پر کراچی اور حیدر آباد کو "شٹ ڈائون" کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ساری کہانی اب سامنے آ چکی ہے۔ لندن میں خان، مولانا اور برادران گجرات کے اجلاس کی تفصیل خود مولانا کے آدمی نے بتا دی، پھر متحدہ والوں نے مزید راز کھولے۔ متحدہ نے نہ صرف کراچی بند کرنے سے انکار کیا بلکہ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ پھر کراچی میں جو ہوا سب نے دیکھا۔ اسی طوفان کی کوکھ سے پاک سرزمین پارٹی کا ظہور ہوا۔ مصطفی کمال جو اپنے "ترقیاتی منصوبوں " کی وجہ سے "مشہور" ہوئے، وہی ترقیاتی منصوبے جو افتتاح سے پہلے گر جاتے تھے، اس پارٹی کے بانی تھے۔ کراچی کے ایک خاص مالدار ترین علاقے میں یہ پارٹی معرض پیدائش میں آئی۔ اس وقت ہر ایک کا خیال تھا کہ اسے کراچی کے الیکشن جتوائے جائیں گے۔ ہر ایک میں عام لوگوں، اخبار نویسوں، سیاسی پنڈتوں کے علاوہ خود مصطفیٰ کمال بھی شامل تھے۔ جو بات اب سب جان گئے ہیں۔ تب کسی کو معلوم نہ ہو سکی اور وہ یہ تھی کہ مصطفی کمال کو سیٹیں دلوانا ہرگز مقصد نہیں تھا۔ مقصد انتشار اور بداعتمادی کی دھول اڑا کر مہاجروں کو کنفیوژ کرنا اور اس دھند پہلے تحریک انصاف کو برآمد کر کے کراچی کی کم و بیش ساری نمائندگی اس کی جھولی میں ڈالنا تھا۔ حکمت عملی کامیاب رہی۔ مہاجر ووٹ کے حق سے دستبردار ہو گیا اور چند دس ہزار ووٹ لینے والے پانچ پانچ لاکھ ووٹروں کے حلقے کے "نمائندے" بنا دیے گئے۔ استعمال کمال بھی خوب ہوئے اور فاروق بھی۔ اور وہ بھی جو قومی اسمبلی میں "متحدہ" کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اختیار ان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم حکومت سے مطمئن نہیں۔ حکومت چھوڑ بھی سکتے ہیں لیکن عملی طور پر چھوڑنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہی کریں گے جو کرنے کے لیے انہیں کہا جائے گا۔ مہاجر اتحاد انتشار کے ریگزار میں گم ہو چکا، کیا مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک، کسی قدر، واپس آیا؟ اس کا پتہ ابھی نہیں چل سکتا۔ مہاجر چاہے جماعت اسلامی کا ہو چاہے جے یو پی کا، انتخابی عمل سے قطع تعلق کر چکا ہے۔ یہ بائیکاٹ جب ختم ہو گا، تبھی کچھ پتہ چلے گا اور خدا جانے یہ سب جو ہو رہا ہے کب ختم ہو گا۔ قومی سطح پر جس بڑی محاذ آرائی کو برپا کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، سب کی نظریں فی الحال تو اسی پر ہیں۔