Pesh Goiyan Aor Jaalsaziyan
Abdullah Tariq Sohail107
بلغاریہ کی آنجہانی نجومن بابادنگاکی ایک اور پیش گوئی سامنے آئی ہے جسے ایک اخبار کی ویب سائٹ نے اس سرخی کے تحت شائع کیا ہے کہ 2019ء میں یعنی اگلے سال سونامی آئے گا جس میں بھارت نیست و نابود ہو جائے گا۔ سرخی میں محض بھارت کا ذکر ہے، شاید "مثبت رپورٹنگ" کے اصول کے تحت یہ سرخی نکالی گئی ہے۔ اس لئے کہ متن میں لکھا ہے، جاپان، بھارت اور پاکستان سمیت کئی ملک"صاف" ہو جائیں گے۔ بابادنگا ایک نابینا خاتون تھی اور اس کی کچھ پیش گوئیوں کے بارے میں مغربی پریس دعویٰ کرتا ہے کہ ٹھیک ثابت ہوئیں۔ اصل میں پیش گوئی کے الفاظ کچھ اور ہوتے ہیں، شارحین بتاتے ہیں کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے۔ مثال کے طور پر نوسڑے ڈیمس کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس نے نیویارک میں ٹِون ٹاورز کی القاعدہ کے ہاتھوں تباہی کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی تھی۔ یہ سراسر مغالطہ تھا۔ نوسڑے ڈیمن نے کہا تھا کہ سمندر کے کنارے آباد ایک شہر کو آتشی پرندے تباہ کر دیں گے۔ سمندر کے کنارے ہزاروں شہر ہیں اور بہت سے ایسے شہر ہیں جن کو فضا کی بمباری سے تباہ کر دیا گیا"شارحین، نے اس مبہم اور "جنرلائز" پیش گوئی کو نیو یارک سے مخصوص کر دیا۔ یہ واردات کاروباری منافع کے لئے کی جاتی ہے چنانچہ نوسڑے ڈیمس کی کتابیں خوب فروخت ہوئیں۔ ٭٭٭٭٭بابادنگا کی پیش گوئی اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے۔ ایسا سونامی بھلا کہاں سے آئے گا جو جاپان سے لے کر پاکستان تک کا سارا علاقہ برباد کر دے۔ تاریخ کا بدترین سونامی بحر ہند میں 2004ء میں آیا تھا، کئی لاکھ لوگ مر گئے لیکن اس سے کوئی ملک سارے کا سارا نابود نہیں ہوا تھا۔ اس نے سب سے زیادہ تباہی انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے شمال مغربی کونے "آچے" میں مچائی تھی۔ آج اتنے برس گزرنے کے بعد آچے پہلے جیسا ہی پررونق اور آباد ہے۔ کچھ قدیم پیش گوئیوں کے مطابق قیامت سے پہلے تین بڑے سونامی آنے ہیں۔ ایک بحرالکاہل، دوسرا بحر ہند اور تیسرا اوقیانوس میں۔ پاکستان بحر ہند میں ہے، یہاں والا سونامی آ چکا چنانچہ ہمیں تو، کم از کم، سونامی کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ بحرالکاہل میں بھی آ چکا۔ اب اوقیانوس کی باری ہے۔ یورپ والے فکر مند ہوں یا امریکہ والے، ہم تو فارغ ہوئے۔ اتنی بڑی تباہی جتنی بابادنگا نے بتائی ہے، قیامت ہی کے دن آئے گی اور وہ کب آئے گی کسی کو نہیں معلوم۔ سچی پیش گوئیاں، پیغمبروں کی ہوتی ہیں کیونکہ وہ پیش گوئیاں ہوتی ہی نہیں، اللہ کی جانب سے دی گئی خبریں ہوتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭پیش گوئیوں کے "شارح" ایک طرف رہے، ہمارے ہاں تو ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے غلط احادیث کو نعوذ باللہ رسول اللہ ؐ سے منسوب کر دیا، یوں نہ صرف دین میں ملاوٹ کی کوشش کی بلکہ پھر ان غلط روایات کی بنیاد پر اپنا کاروبار بھی چمکایا۔ اولیائے کرام کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد مشہور صاحب ولایت، نعمت شاہ ولی کی پیش گوئیاں منظر عام پر آئیں۔ ان پیش گوئیوں کا دوسرا ایڈیشن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ بتایا گیا کہ حرف بحرف ٹھیک پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ شاہ صاحب کی اصل پیش گوئیوں والی کتاب کہاں ہے۔ بہت سے الحاقات کر کے اسے بھی مذاق بنا دیا گیا۔ یہ تو دین کے معاملے تھے، ہیر وارث شاہ جو بے انتہا اشاعت پانے والی کتاب ہے، اس میں بھی گیارہ ہزار سے زیادہ شعرالحاقی ہیں۔ زاہد اقبال ایک بہت محنتی لیکن کم معروف محقق ہیں، انہوں نے ہر الحاقی شعر کا پتہ بھی بتایا اور اس کے شاعر کا نام بھی۔ ٭٭٭٭٭پیش گوئیاں کرنے والے کاہن اورنجومی ہر دور میں رہے ہیں۔ ان کی پیش گوئیوں میں سے کچھ صحیح بھی ثابت ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ایک علم ہے، چاہے تو اسے کوئی زاہد حاصل کر لے چاہے تو کوئی فاجر۔ لیکن اصول کی ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا نجومی کسی پوری قوم کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ ایک فرد کے بارے میں کی جا سکتی ہے، جیسے کائرو (Cairo)تھا۔ اس کی پیش گوئیاں افراد کے بارے میں حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ اقوام و قبائل کے بارے میں کوئی بڑے سے بڑا پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ بھلا بتائیے تو، دونوں عالمی جنگوں، سوویت یونین کی تباہی، برطانیہ کے زوال، امریکہ کے عروج، ہیرو شیما، ناگاساکی پر ایٹم بم برسنے کے تباہ کن واقعے، سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات کی پیش گوئی کس نے کی؟ کسی نے نہیں کی۔ ٭٭٭٭٭ہاں، یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات ارباب روحانیت آنے والے دور کی کوئی دھندلی سی تصویر دیکھ لیتے ہیں اور یہ اشارے بعدازاں متشکل بھی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئرش شاعر، ڈبلیوی ییٹس W.B.Yeatsبھی ایک روحانی آدمی تھا۔ اس نے بیسویں صدی کے شروع میں ایک لائن لکھی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں ایک درندہ بیت المقدس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ییٹس 1939ء میں وفات پا گئے کسی کو اس مصرعے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ کچھ نے کہا، دجال کی آمد کا اشارہ دیا ہے۔ بعد میں واضح ہوا کہ وہ اسرائیل کی تشکیل دیکھ رہا تھا۔ ییٹس ہی نے یہ "قانون" بتایا تھا کہ نوع انسانی ہر دو ہزار سال بعد مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اس نے تاریخ انسانی کو ایک سپرنگ قرار دیا اور اس سپرنگ کے ہر کنڈل (جائرGyre) کو دو ہزار سال پر محیط بتایا۔ یہ الگ بحث ہے۔ بہرحال، ہم دیکھ رہے ہیں کہ تبدیلی کا عمل اتنا تیز ہے کہ گزشتہ صدی کے اواخر کا عرصہ دو ہزار برس سے بھی زیادہ بدلائو لے آیا ہے، ہر شے، یہاں تک کہ انسانی نفسیات کے پیچ و خم بھی بدل گئے ہیں۔ اسرائیل کی تباہی کا وقت بھی بائبل میں بتا دیا گیا ہے۔ اگر وہ الہامی آیات ہیں، الحاقی نہیں تو یوں سمجھئے، عشرے بھر کی بات ہے لیکن یاد رہے، احادیث رسولؐ میں کسی سال یا عشرے کا تعین نہیں کیا گیا۔ بس یہ بتایا ہے کہ اسرائیل قیامت سے بہت پہلے ختم ہو کر رہے گا۔